ٹوم لانٹوس ہیومن رائٹس کمیشن 14 نومبر کو دو بجے مقامی وقت کے مطابق 'بھارتی ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کرنے اور اسے مرکز کے زیرانتظام دو علاقوں میں تقسیم کرنے کے معاملے میں انسانی حقوق کی صورتحال کو تاریخی اور قومی تناظر میں جانچ' کرنے کے لئے سماعت کرے گا۔
اس سے قبل سنہ 2014 اور 2015 میں اس کمیشن نے اہم سماعتوں میں بھارت میں مذہبی اقلیتوں کی حالت زار پر وسیع تبادلہ خیال کیا تھا۔
ایک باضابطہ اعلان میں کہا گیا کہ: 'بھارتی حکومت نے مسلم اکثریتی جموں و کشمیر کی قانونی حیثیت کو تبدیل کرنے کے فیصلے، جو اگست 5 کو اعلان کیا تھا اور 31 اکتوبر 2019 کو وجود میں آیا۔ اس فیصلے کی وجہ سے کشمیر مسئلے پر خاص طور پر توجہ دی گئی۔ وہاں ہو رہے مبینہ طور پر انسانی حقوق کی پامالیوں کی مستقل اطلاعات، بشمول اظہار رائے کی آزادی کے خلاف کریک ڈاؤن، سیکڑوں سیاستدانوں، وکلاء، صحافیوں اور سول سوسائٹی کی دیگر شخصیات کی نظربندی اور لوگوں کے لاپتہ ہونے کے متعلق خدشات اور مظاہرین کے خلاف ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کرنے سے کشمیر کو بین الاقوامی توجہ حاصل ہوئی ہے۔
خطے میں سکیورٹی فورسز کی بھاری نفری کی موجودگی اور بڑھتی عسکریت پسندی نیز مرکزی حکومت کے معاشی اور سماجی سطح پر کیے جانے والے مبینہ اقدامات کے نتائج نے بھی بڑے پیمانے پر تشویش پیدا کردی ہے جس میں انٹرنیٹ اور فون پر مسلسل پابندیاں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ عسکریت پسندوں نے بیرون ریاست کام کرنے والوں کو نشانہ بنایا ہے اور کاروباری اداروں کو بند رکھنے کی دھمکی دی ہے۔'
پریس بیان میں مزید کہا گیا کہ : 'گواہ خطے کی تاریخ اور بھارت اور پاکستان میں حقوق پامالی کے تناظر میں جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لیں گے اور کانگریس کے ذریعہ کارروائی کے لئے سفارشات پیش کریں گے۔'
*سینیئر صحافی سمیتا شرما کا ای ٹی وی بھارت کے لیے لکھا گیا خاص آرٹیکل