نئی قومی تعلیمی پالیسی میں سہ لسانی زبانوں کے تحت اردو زبان کو شامل نہ کرنے پر ماہرین تعلیمی نے سخت اعتراض درج کرایا ہے اور کہا ہے کہ 'تمام زبانوں کا تذکرہ تعلیمی پالیسی میں ہے لیکن ہماری مادری زبان اردو کو اس میں کیوں نہیں شامل کیا گیا۔ یہ مبہم ہے ایسے میں سرکار سے وضاحت ضروری ہے'۔
اردو زبان کو سہ لسانی فارمولہ میں شامل کرنے کے ضمن میں سرکار کی توجہ مبذول کرانے کے لیے ممبئی میں ایک آن لائن اجلاس منعقد کیا گیا۔
اس زوم میٹنگ میں کئی ماہرین تعلیم، دانشوران اور اساتذہ نے خطاب کیا اور تجاثیز پیش کیں۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لأ بورڈ خواتین ونگ کی صدر ڈاکٹر اسما طیبہ زہرا نے کہا ہے کہ 'ہمیں سرکار کی اس پالیسی پر نگرانی رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس پالیسی میں اردو زبان کو شامل نہ کیا جانا متضاد بات ہے'۔
معروف عالم دین مولانا محمود دریا بادی نے بھی اس معاملے میں اپنا احتجاج درج کرایا اور کہا کہ 'اس کے لئے لائحہ عمل طے کیا جائے کہ کس طرح سے ہماری مادری زبان کے ساتھ دیگر زبانوں کو بھی اس میں جگہ دی جائے'۔
انہوں نے کہا کہ 'مہاراشٹر میں مادری زبان مراٹھی ہے تو کیا اردو میڈیم اسکولز بند ہو جائے، اس سے اردو زبان کو نقصان ہو گا۔ اسی طرح اترپردیش میں بھی اردو زبان بولنے اور پڑھنے والے ہیں جبکہ یہاں اردو میڈیم کے بجائے ہندی کو ذریعہ تعلیم بنایا گیا ہے'۔
ایک اور مندوب نے کہا ہے کہ 'سہ لسانی فارمولے کو اس پالیسی میں شامل کیا گیا ہے لیکن اردو زبان کا تذکرہ نہ کیا جانا سب کے لئے باعث اضطراب ہے'۔
اس میٹنگ میں کئی ماہرین تعلیم کے ساتھ ساتھ اساتذہ اور ہیڈماسٹرز بھی موجود تھے۔ ممبئی شہر کے کئی سرکردہ ماہر تعلیم نے بھی اس مسئلہ پر اپنی رائے اور مشورے سے نوازے ۔
واضح رہے کہ ایم ایچ آر ڈی کی ویب سائٹ کے مطابق 'حکومت نے مشمولاتی عمل کے ذریعے ایک جامع، شریک اور ہمہ گیر نقطہ نظر کے لئے نئی قومی تعلیمی پالیسی 2020 بنائی ہے۔ جس میں ماہرین تعلیم کی آراء، فیلڈ تجربات، تجرباتی تحقیق اور اسٹیک ہولڈر کی آراء کے ساتھ ساتھ بہترین طریقوں سے سیکھے گئے اسباق کو بھی مدنظر رکھا جائے گا'۔
اس سائٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 'قومی تعلیمی پالیسی کے مسودے کی تیاری کے لئے کستوری رنگن کمیٹی نے 31 مئی 2019 کو اپنی رپورٹ وزارت کو پیش کی۔ اس پالیسی کا ڈرافٹ ایم ایچ آر ڈی کی ویب سائٹ اور مائیو گو انوویٹ پورٹل پر اپ لوڈ کیا گیا، جس میں عوام سمیت اسٹیک ہولڈرز اپنے نظریات، مشورے اور تبصرے بھی دے سکتے ہیں'۔