دنیا کے مختلف ملکوں میں موجود اردو لکھنے، بولنے، سمجھنے اور پڑھنے والوں کے لیے یہ خبر بڑی ہی دلدوز ہے کہ طنز و مزاح کے بادشاہ کہے جانے والے اور پدم شری ایوارڈ یافتہ مجتبیٰ حسین اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ انا للہ وانا اليه راجعون
موجودہ صدی میں ادب کے ذریعے لوگوں کو ہنسانے اور تفریح طبع فراہم کرنے یعنی طنز و مزاح کے میدان میں پاکستان میں مشتاق احمد یوسفی (پیدائش: 4 ستمبر 1923 ۔۔۔ وفات 20 جون 2018) اور بھارت میں مجتبی حسین (پیدائش: 15 جولائی 1936 ۔۔۔وفات 27 مئی 2020) ہی رہ گئے تھے۔
مجتبیٰ حسین 15 جولائی 1936 کو کرناٹک کے شہر گلبرگہ میں پیدا ہوئے۔ 1956 میں عثمانیہ یونیورسٹی میں گریجویشن کیا۔ اس کے بعد 1962 میں حکومت ہند کے محمکہ اطلاعات میں ملازمت اختیار کی۔
مجتبیٰ حسین کی کتابوں میں سفر نامہ چلو چلیں جاپان، آپ کی تعریف، آدمی نامہ، مزاحیہ مضامین بہرحال، شخصیات پر مبنی چہرہ در چہرہ، کالم دانستہ، میرا کالم، قصہ مختصر، قطع کلام، تہذیب و تحریر اور تکلف برطرف خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ مجتبی حسین کے منتخب کالم، مجتبی حسین کے سفر نامے اور دیگر تحریریں زیر طبع سے آراستہ ہوچکی ہیں۔ بقول شاعر
جسم تو خاک ہے اور خاک میں مل جائے گا
میں بہر حال کتابوں میں ملوں گا تم کو
مجتبیٰ حسین کی سات کتابیں ہندی میں بھی شائع ہوئی ہیں۔
انہیں سنہ 1982 میں غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی کی جانب سے پہلا غالب ایوارڈ برائے اردو طنزومزاح سے نوازا گیا۔
سنہ 1990 میں اردو اکادمی دہلی نے تخلیقی نثر کا سب سے بڑا ایوارڈ ایوارڈبرائے تخلیقی نثر سے نوازا۔
سنہ 1992 میں متحدہ آندھرا پردیش اردو اکادمی نے پہلےکل ہند مخدوم محی الدین ادبی ایوارڈسے سرفراز کیا گیا۔
سنہ 1998 میں میں ہریانہ اردو اکادمی کی جانب سےکل ہند مہندر سنگھ بیدی ایوارڈ برائے طنزومزاح سے نوازاگیا۔
سنہ 2001 میں کرناٹک اردو اکادمی نے کل ہند ایوارڈ برائے مجموعی خدمات سے نوازا۔
سنہ 2003 میں مدھیہ پردیش اردو اکادمی نے کل ہند جوہر قریشی ایوارڈسے سرفراز کیا۔
انھیں2007 میں حکومت ہند نے اپنے ایک اعلیٰ شہری ایوارڈپدم شریسے سرفراز کیا۔
سنہ 2011 میں اردو ساہتیہ اکادمی حکومت مہاراشٹر نے سنت گیا نیشورنیشنل ایوارڈعطا کیا۔
مجتبی حسین حیدرآباد کے مشہور اخبار روزنامہ سیاست میں 'میرا کالم' کے تحت مسلسل لکھتے رہے ہیں۔