آج جاری ایک ریلیز کے مطابق اس رپورٹ میں اترپردیش میں حالیہ تشدد کی مکمل معلومات ہو گی۔ واضح رہے کہ 19 دسمبر کو لکھنؤ میں شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف ہوئے احتجاج میں تشدد برپا ہوگیا تھا اور اس تشدد کے بعد صرف لکھنؤ میں تقریبا 150 سے زائد کو گرفتار کر تھانے میں لایا گیا جہاں ان کے ساتھ مبینہ زیادتیوں کی بھی خبریں ہیں۔ انہیں بعد ازاں جیل میں ڈال دیا گیا، پھر پوری ریاست میں جائیدادیں سیل کی گئیں، گولیاں چلائی گئیں جس میں 23 بے گناہ لوگ مبینہ طور پر پولیس کی گولیوں کا شکار ہوئے۔
پولیس کی طرف سے گرفتار کیے گئے بے گناہوں میں سے لکھنؤ میں 26 نوجوانوں کی ضمانت ہو پائی ہے۔
ریلیز میں کہا گیا کہ لکھنؤ میں جیل بھیجے گئے 150 قیدیوں میں زیادہ تر مزدور، کمزور طبقے سے آئے نوجوان، ہوٹلوں کے ویٹرز، ٹیلر اور رکشا پلر شامل ہیں۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے ان بے گناہ لوگوں کو گرفتار کرنے میں ریاست کی مشینری کے لیے ان کی مسلم شناخت ہی اہم تھی۔ اس سلسلے میں لکھنؤ کے قیدیوں کے بارے میں ہم نے ایک تفصیلی رپورٹ تیار کی ہے جسے متاثرین کی آپ بیتی سننے کے بعد تیار کی گئی ہے۔
مندرجہ ذیل اہم شخصیات کی موجودگی میں رپورٹ ریلیز کی جائے گی۔ جن میں جسٹس برکت علی زیدی (الہ آباد ہائی کورٹ)، وکاس نارائن رائے (سابق آئی پی ایس و ڈی جی پی ہریانہ)، جسٹس رفاقت علی خان (سابق جج-الہ آباد ہائی کورٹ)، جسٹس بی ڈی نقوی، (سابق جج لکھنؤ ہائی کورٹ)، ویبھوتی نارائن رائے (سابق آئی پی ایس و ڈی آئی جی اترپردیش)، ظفر الاسلام خان چیئرمین دہلی اقلیتی کمیشن شامل ہیں۔
یہ پروگرام سمویدھان بچاؤ دیش بچاؤ مہم،کے تحت ہورہا ہے جس کے سرپرست ڈاکٹر عزیز قریشی سابق گورنر اترپردیش، اتراکھنڈ و میزورم ہیں اور کنوینر پروفیسر رمیش دکشت اور عمیق جامعی ہیں۔