برطانیہ کی اپوزیشن لیبر پارٹی نے عجلت میں پاس کی گئی ایک تحریک میں کشمیر کی موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پارٹی رہنما جیرمی کوربن کو کہا ہے کہ وہ بین الاقوامی مبصرین کے کشمیر میں داخلےکا مطالبہ کریں اور وہاں کے لوگوں کے لیے حق خودارادیت کی مانگ کریں۔
اس تحریک سے بھارتی نژاد مندوبین سیخ پا ہوگئے ہیں اور اسے نامعقول قرار دیا ہے۔
حالانکہ برطانوی حکومت کشمیر کو بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک دو طرفہ تنازعہ سمجھتی ہے، لیکن حزب اختلاف کی لیبر پارٹی نے برجٹن میں منعقدہ سالانہ اجلاس میں جیرمی کوربن پر زور دیا کہ ان کی پارٹی میں کسی شخص کو کشمیر معاملے پر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں نمائندگی کے لیے نامزد کریں۔
کانفرنس میں مطالبہ کیا گیا کہ لیبر پارٹی کے ایک رکن کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں جاکر کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کی بحالی، مواصلات اور تقریر کی آزادی، کرفیو کے خاتمے اور بین الاقوامی رضاکار تنظیمیوں و مبصرین کو کشمیر میں داخلے کی اجازت دلانے کی مانگ کرنی چاہیے۔
قرارداد میں کوربن سے کہا کیا کہ وہ بھارت اور پاکستان کے ہائی کمشنرز سے ملاقات کریں اور یہ یقینی بنائیں کہ کشمیر کے معاملے پر ثالثی ہوں، اور دونوں ممالک کے درمیان صلح جوئی ہو تاکہ نیوکلیائی مخاصمت کو خطے سے دور رکھا جائے۔
قرارداد میں کہا گیا کہ کہ لیبر پارٹی کشمیر کو متنازعہ خطہ مانتی ہے اور کشمیر کے لوگوں کو اقوام متحدہ کی قرارداروں کو پس منظر میں حق خودارادیت ملنا چاہیے۔
قرارداد کے مطابق لیبر پارٹی کشمیری عوام کے ساتھ ہے کیونکہ یہ سماجی انصاف اور خارجہ پالیسی کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔
قرارداد پر پارٹی کے بھارتی نژاد مندوبین سیخ پا ہوگئے، انہوں نے کہا کہ اس سے پارٹی کو بھارتی شہریوں کا تعاون مزید کم ہوگا۔
ایک میڈیا ادارے کے سربراہ منوج لاوڈا، جو ماضی میں لیبر پرٹی کے ینڈین کیمونٹی انگیجمنٹ فورم کے سربراہ رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ لیبر پارٹی کے روابط روایتی طور بھارت اور برطانیہ نشین بھارتیوں کے ساتھ بہتر رہے ہیں، لیکن جیرمی کوربن کی قیادت میں یہ پارٹی بدل گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ قرارداد نامعقول ہے اور اس سے بھارتی نسل کے لوگ لیبر پارٹی سے مزید دور ہوجائیں گے۔