سپریم کورٹ نے مسلم ایڈوکیٹ ایسوسی ایسن آف تمل ناڈو کی عرضی کو سماعت کے لیے منظور کر لیا ہے اور اس عرضی کو اصل کیس میں شامل کرلیا گیا ہے۔
جسٹس این وی رمن کی سربراہی والی پنچ نے اس پر مرکزی حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔
اس سے قبل بھی سپریم کورٹ میں طلاق ثلاثہ بل کی قانونی حیثیت کو چیلنچ کرتے ہوئے کئی عرضیاں داخل کی گئی ہیں اور ان پر مرکزی حکومت سے جواب طلب کیا گیا ہے۔
جمعیت علما ہند سمیت دو دیگر عرضی گزاروں نے عرضی داخل کرکے کہا تھا: مرکزی حکومت کی طرف لایا گیا تین طلاق بل آئین کے خلاف ہے۔
درخواست گزاروں نے سپریم کورٹ سے اپیل کی تھی کہ طلاق ثلاثہ بل کے ہر پہلو پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔
ان عرضیوں کو سپریم کورٹ نے سماعت کے لیے منظور کر لیا تھا اور مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا تھا۔
اس موقع پر سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ طلاق ثلاثہ بل کی باریکیوں پر غور کیا جائے گا۔
طلاق ثلاثہ بل کو رواں برس جولائی میں بھارتی پارلیمان کے دونوں ایوانوں نے اکثریت سے منظور کر لیا تھا اور پھر صدر رام ناتھ کووند کی مہر کے بعد یہ بل مستقل قانون کی شکل اختیار کر لیا تھا۔
طلاق ثلاثہ بل کو ایوان زیریں یعنی لوک سبھا میں بھاری اکثریت سے منظور کر لیا گیا تھا، جبکہ ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں اس بل کے حق میں 99 اور مخالفت میں 84 ووٹ پڑے تھے۔ بھارتی حکومت نے اس قدم کو ایک تاریخی کامیابی سے گردانا تھا۔
پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اپوزیشن نے بل کی شدید مخالفت کی تھی۔ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا تھا کہ جب شوہر جیل چلا جائے گا تو اس کے بیوی بچوں کی کفالت کون کرے گا۔ حکومت نے مطلقہ اور اس کے بچوں کے نان نفقے کا کوئی انتظام نہیں کیا ہے۔
اس بل میں تین طلاقیں دینے والے شوہر کو تین سال جیل کی سزا تجویز کی گئی ہے۔
اس سے قبل سپریم کورٹ نے تین طلاق کو غیر آئینی و غیر قانونی قرار دیا تھا۔ اس کا مطلب یہ کہ بیک وقت دی جانے والی تین طلاق موثر نہیں ہوگی۔