ETV Bharat / bharat

عصر حاضر کے مظاہروں میں اردو اشعار کا استعمال - شہریت ترمیمی قانون اور این آرسی کے خلاف احتجاج

سال 2019 اختتام پذیر ہے، مستقبل میں 2019 کو بھارت بھر میں ہورہے احتجاجات کے طور پر یاد کیا جائے گا۔ یہ مظاہرے بھارت میں ایک نئی تبدیلی کا اشارہ دیتے ہیں۔ مظاہروں کو جاندار بنانے کے لیے اردو کے اشعار و سلوگن بھی اپنا نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔

The use of Urdu poetry in contemporary protest
عصر حاضر کے مظاہروں میں اردو اشعار کا استعمال
author img

By

Published : Dec 29, 2019, 10:43 AM IST

دنیا بھر میں جہاں جہاں ایک نئی تبدیلی سے پہلے عوام میں ہلچل اور بے چینی کی کیفیات محسوس کی گئی، تاریخ کے مطالعے سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ عوامی طاقت سے برپا تحریریں حکومت کے پرزور پروپیگنڈوں کے باوجود بھی اکثر و بیشتر کامیاب ہوئی ہیں۔

انقلاب فرانس ہو یا خود بھارت کی تحریک آزادی، ہر جگہ زبان نے اور اس کے مختصر ترین الفاظ نے اپنا بااثر کردار ادا کیا ہے۔

اس وقت ملک بھر میں شہریت ترمیمی قانون اور این آرسی کے خلاف احتجاج جاری ہیں، مظاہرین نعروں سے لکھی تختیاں لے کر اپنا احتجاج درج کرا رہے ہیں۔ ان تختیوں میں اکثر تحریریں اردو شعرا کے اشعار سے مزین نظر آتی ہیں۔

حکومت نے جب سے شہریت ترمیمی قانون کو منظوری دی ہے، اس کے چند دن بعد سے ہی این آر سی اور سی اے اے کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔ جو اب بھی جاری ہیں۔

The use of Urdu poetry in contemporary protest
فوٹو بشکریہ، دانش، دہلی

اطلاعات کے مطابق رواں برس دسمبر کی 13 تاریخ کو دہلی کی معروف مرکزی یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا نے احتجاج شروع کیا، اس سے قبل ریاست آسام میں مظاہرے شروع ہو چکے تھے۔

وہیں 15 دسمبر 2019 اتوار کی شب دہلی پولیس جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کیمپس کی لائبریری میں گھس کر طلبہ کے ساتھ زیادتی کرتی ہے۔

اس واقعے کے بعد ملک گیر پیمانے پر طلبہ کی حمایت اور سی اے اے و این آر سی کے خلاف احتجاج شروع ہوگیا۔ ان مظاہروں میں اکثر ایسے اشعار سے لکھی تختیاں نظر آئیں جو اردو شعرا نے اپنے زمانے میں کہے تھے جو اس وقت کے حالات پر صادق آتے تھے۔ لیکن آج کی موجودہ صورتحال میں بھی وہ صادق نظر آتے ہیں۔

سیاسی جبر کی مخالفت کے لیے مشہور پاکستانی شاعر حبیب جالب کی معروف نظم 'دستور' اُس وقت وائرل ہونا شروع ہوئی جب جے این یو کے طلبہ نے بڑھی ہوئی ہاسٹل فیس کے خلاف مظاہرے شروع کیے۔

The use of Urdu poetry in contemporary protest
فوٹو بشکریہ، شاشوت، بی ایچ یو

ششی بھوشن نامی طالب علم جو نابینا ہیں، انھوں نے جے این یو کے کیمپس میں مظاہرے سے پہلے ہی یہ نظم گائی تھی جس کا ویڈیو مظاہرے کے بعد وائرل ہوا، اور اس مظاہرے میں بھی یہ نظم گائی جاتی رہی۔

نظم ملاحظہ ہو۔۔۔۔۔
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

میں بھی خائف نہیں تختۂ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

پھول شاخوں پہ کھلنے لگے تم کہو
جام رندوں کو ملنے لگے تم کہو
چاک سینوں کے سلنے لگے تم کہو
اس کھلے جھوٹ کو ذہن کی لوٹ کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
چارہ گر دردمندوں کے بنتے ہو کیوں
تم نہیں چارہ گر کوئی مانے مگر
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

جامعہ کے مظاہروں میں بھی اردو اشعار کی تختیاں خوب نظر آرہی ہیں، بیسویں صدی کے انقلابی شاعر فیض احمد فیض کی نظم 'بول' کا ایک مصرع خوب مقبول ہورہا ہے۔
شعر کچھ یوں ہے۔۔۔

بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے

The use of Urdu poetry in contemporary protest
فوٹو بشکریہ، انجم عالم، دہلی

فیض کی ایک اور نظم 'ہم دیکھیں گے' بھی خوب ان مظاہروں میں پڑھی جارہی ہے۔ لوگ انقلاب کے جذبات کو پرزور بنانے کے لیے ان نظموں و اشعار کا خوب استعمال کر رہے ہیں۔ فیض کی مذکورہ نظم ملاحظہ فرمائیں۔۔۔۔۔

ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر

جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب ارض خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہل صفا مردود حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو منظر بھی ہے ناظر بھی
اٹھے گا انا الحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

The use of Urdu poetry in contemporary protest
فوٹو بشکریہ، دانش، دہلی

راحت اندوری بھارت کے مقبول شاعر ہیں، ان کا مشہور شعر
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے

The use of Urdu poetry in contemporary protest
فوٹو بشکریہ، انجم عالم، دہلی

اس شعر کا مصرعہ ثانی پورے بھارت میں ہورہے احتجاج میں خوب استعمال ہو رہا ہے۔ جامعہ اور دہلی کے دوسرے مظاہروں میں اس شعر کی تختیاں خوب دکھ رہی ہیں، جو سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوئیں جسے عوام نے اپنی وہاٹس ایپ اسٹوری میں شیئر بھی کیا۔

بھارت کا تاریخی شہر بنارس بھی شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں میں گواہ بنا۔ یہاں بھی بی ایچ یو کے طلبہ نے الگ الگ تحریروں کے ساتھ فراق اور جون ایلیا کی غزل کا ایک شعر لکھا تھا۔

ملاحظہ ہو
سر زمین ہند پر اقوام عالم کے فراقؔ
قافلے بستے گئے ہندوستاں بنتا گیا

The use of Urdu poetry in contemporary protest
فوٹو بشکریہ، شاشوت، بی ایچ یو

جون ایلیا جو نوجوانوں میں ان دنوں بڑے مقبول ہیں ان کا بھی ایک شعر بھی بی ایچ یو کے مظاہرے کا حصہ بنا۔

ملاحظہ ہو
کیا پوچھتے ہو نام و نشان مسافراں
ہندوستاں میں آئے ہیں ہندوستاں کے تھے

The use of Urdu poetry in contemporary protest
فوٹو بشکریہ، شاشوت، بی ایچ یو

مذکورہ شعر جون نے تب کہے تھے جب پاکستان سے وہ بھارت اپنے آبائی شہر 'امروہہ' آئے تھے۔ یہ لمحہ ان کے لیے بڑا جذباتی تھا۔


علامہ اقبال کو بھی عوام ان دنوں مظاہرے کے دوران خوب یاد کر رہی ہے۔ ان کی مشہور زمانہ نظم قومی ترانۂ ہندی کا ایک مصرعہ جامعہ اور دہلی کے احتجاج کے میں لکھی تختیوں پر نظر آیا۔

ملاحظہ ہو
'مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا'

اس کا دوسرا مصرعہ یہ ہے
'ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا'

The use of Urdu poetry in contemporary protest
فوٹو بشکریہ، انجم عالم، دہلی

ان سب کے علاوہ حسرت موہانی کا نعرہ 'انقلاب زندہ باد' بھی مظاہرین کا نعرہ بنا۔

شاعر شباب اور شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی کا شعر
کام ہے میرا تغیر نام ہے میرا شباب
میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب

بھی ان دنوں سوشل میڈیا پر اپنی رائے زنی کے اظہار کے لیے خوب استعمال کیا جارہا ہے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ اردو زبان و ادب کے یہ اشعار اپنی اہمیت و افادیت آج بھی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ عوام کو جب بھی ایسے دور کا سامنا ہوگا یہ اشعار انھیں یاد آتے رہیں گے۔

دنیا بھر میں جہاں جہاں ایک نئی تبدیلی سے پہلے عوام میں ہلچل اور بے چینی کی کیفیات محسوس کی گئی، تاریخ کے مطالعے سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ عوامی طاقت سے برپا تحریریں حکومت کے پرزور پروپیگنڈوں کے باوجود بھی اکثر و بیشتر کامیاب ہوئی ہیں۔

انقلاب فرانس ہو یا خود بھارت کی تحریک آزادی، ہر جگہ زبان نے اور اس کے مختصر ترین الفاظ نے اپنا بااثر کردار ادا کیا ہے۔

اس وقت ملک بھر میں شہریت ترمیمی قانون اور این آرسی کے خلاف احتجاج جاری ہیں، مظاہرین نعروں سے لکھی تختیاں لے کر اپنا احتجاج درج کرا رہے ہیں۔ ان تختیوں میں اکثر تحریریں اردو شعرا کے اشعار سے مزین نظر آتی ہیں۔

حکومت نے جب سے شہریت ترمیمی قانون کو منظوری دی ہے، اس کے چند دن بعد سے ہی این آر سی اور سی اے اے کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔ جو اب بھی جاری ہیں۔

The use of Urdu poetry in contemporary protest
فوٹو بشکریہ، دانش، دہلی

اطلاعات کے مطابق رواں برس دسمبر کی 13 تاریخ کو دہلی کی معروف مرکزی یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا نے احتجاج شروع کیا، اس سے قبل ریاست آسام میں مظاہرے شروع ہو چکے تھے۔

وہیں 15 دسمبر 2019 اتوار کی شب دہلی پولیس جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کیمپس کی لائبریری میں گھس کر طلبہ کے ساتھ زیادتی کرتی ہے۔

اس واقعے کے بعد ملک گیر پیمانے پر طلبہ کی حمایت اور سی اے اے و این آر سی کے خلاف احتجاج شروع ہوگیا۔ ان مظاہروں میں اکثر ایسے اشعار سے لکھی تختیاں نظر آئیں جو اردو شعرا نے اپنے زمانے میں کہے تھے جو اس وقت کے حالات پر صادق آتے تھے۔ لیکن آج کی موجودہ صورتحال میں بھی وہ صادق نظر آتے ہیں۔

سیاسی جبر کی مخالفت کے لیے مشہور پاکستانی شاعر حبیب جالب کی معروف نظم 'دستور' اُس وقت وائرل ہونا شروع ہوئی جب جے این یو کے طلبہ نے بڑھی ہوئی ہاسٹل فیس کے خلاف مظاہرے شروع کیے۔

The use of Urdu poetry in contemporary protest
فوٹو بشکریہ، شاشوت، بی ایچ یو

ششی بھوشن نامی طالب علم جو نابینا ہیں، انھوں نے جے این یو کے کیمپس میں مظاہرے سے پہلے ہی یہ نظم گائی تھی جس کا ویڈیو مظاہرے کے بعد وائرل ہوا، اور اس مظاہرے میں بھی یہ نظم گائی جاتی رہی۔

نظم ملاحظہ ہو۔۔۔۔۔
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

میں بھی خائف نہیں تختۂ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

پھول شاخوں پہ کھلنے لگے تم کہو
جام رندوں کو ملنے لگے تم کہو
چاک سینوں کے سلنے لگے تم کہو
اس کھلے جھوٹ کو ذہن کی لوٹ کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
چارہ گر دردمندوں کے بنتے ہو کیوں
تم نہیں چارہ گر کوئی مانے مگر
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

جامعہ کے مظاہروں میں بھی اردو اشعار کی تختیاں خوب نظر آرہی ہیں، بیسویں صدی کے انقلابی شاعر فیض احمد فیض کی نظم 'بول' کا ایک مصرع خوب مقبول ہورہا ہے۔
شعر کچھ یوں ہے۔۔۔

بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے

The use of Urdu poetry in contemporary protest
فوٹو بشکریہ، انجم عالم، دہلی

فیض کی ایک اور نظم 'ہم دیکھیں گے' بھی خوب ان مظاہروں میں پڑھی جارہی ہے۔ لوگ انقلاب کے جذبات کو پرزور بنانے کے لیے ان نظموں و اشعار کا خوب استعمال کر رہے ہیں۔ فیض کی مذکورہ نظم ملاحظہ فرمائیں۔۔۔۔۔

ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر

جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب ارض خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہل صفا مردود حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو منظر بھی ہے ناظر بھی
اٹھے گا انا الحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

The use of Urdu poetry in contemporary protest
فوٹو بشکریہ، دانش، دہلی

راحت اندوری بھارت کے مقبول شاعر ہیں، ان کا مشہور شعر
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے

The use of Urdu poetry in contemporary protest
فوٹو بشکریہ، انجم عالم، دہلی

اس شعر کا مصرعہ ثانی پورے بھارت میں ہورہے احتجاج میں خوب استعمال ہو رہا ہے۔ جامعہ اور دہلی کے دوسرے مظاہروں میں اس شعر کی تختیاں خوب دکھ رہی ہیں، جو سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوئیں جسے عوام نے اپنی وہاٹس ایپ اسٹوری میں شیئر بھی کیا۔

بھارت کا تاریخی شہر بنارس بھی شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں میں گواہ بنا۔ یہاں بھی بی ایچ یو کے طلبہ نے الگ الگ تحریروں کے ساتھ فراق اور جون ایلیا کی غزل کا ایک شعر لکھا تھا۔

ملاحظہ ہو
سر زمین ہند پر اقوام عالم کے فراقؔ
قافلے بستے گئے ہندوستاں بنتا گیا

The use of Urdu poetry in contemporary protest
فوٹو بشکریہ، شاشوت، بی ایچ یو

جون ایلیا جو نوجوانوں میں ان دنوں بڑے مقبول ہیں ان کا بھی ایک شعر بھی بی ایچ یو کے مظاہرے کا حصہ بنا۔

ملاحظہ ہو
کیا پوچھتے ہو نام و نشان مسافراں
ہندوستاں میں آئے ہیں ہندوستاں کے تھے

The use of Urdu poetry in contemporary protest
فوٹو بشکریہ، شاشوت، بی ایچ یو

مذکورہ شعر جون نے تب کہے تھے جب پاکستان سے وہ بھارت اپنے آبائی شہر 'امروہہ' آئے تھے۔ یہ لمحہ ان کے لیے بڑا جذباتی تھا۔


علامہ اقبال کو بھی عوام ان دنوں مظاہرے کے دوران خوب یاد کر رہی ہے۔ ان کی مشہور زمانہ نظم قومی ترانۂ ہندی کا ایک مصرعہ جامعہ اور دہلی کے احتجاج کے میں لکھی تختیوں پر نظر آیا۔

ملاحظہ ہو
'مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا'

اس کا دوسرا مصرعہ یہ ہے
'ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا'

The use of Urdu poetry in contemporary protest
فوٹو بشکریہ، انجم عالم، دہلی

ان سب کے علاوہ حسرت موہانی کا نعرہ 'انقلاب زندہ باد' بھی مظاہرین کا نعرہ بنا۔

شاعر شباب اور شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی کا شعر
کام ہے میرا تغیر نام ہے میرا شباب
میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب

بھی ان دنوں سوشل میڈیا پر اپنی رائے زنی کے اظہار کے لیے خوب استعمال کیا جارہا ہے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ اردو زبان و ادب کے یہ اشعار اپنی اہمیت و افادیت آج بھی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ عوام کو جب بھی ایسے دور کا سامنا ہوگا یہ اشعار انھیں یاد آتے رہیں گے۔

Intro:Body:

fhgfjg


Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.