ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت کے دوران ریمن میگسیسے ایوارڈ یافتہ سندیپ پانڈے نے کہا کہ ' ملک میں حکومت کے خلاف جو کوئی آواز اٹھانا چاہتا ہے اسے زبردستی خاموش کردیا جاتا ہے'۔
جہاں تک ملک میں جمہوریت کا سوال ہے، اب محض حکومت کے ہاتھوں کھلونا بن کر رہ گئی ہے۔ سندیپ پانڈے نے کشمیر کے موضوع پر مودی حکومت کے خلاف جم کر نکتہ چینی کی۔
انھوں نے مزید کہا کہ حکومت کے خلاف جو بھی آواز اٹھاتا ہے اسے خاموش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ یہی وجہ کہ جب ہم احتجاج کرنا چاہتے ہیں تب حکومت کے لوگ ہمیں نظر بند کردیتے ہیں۔
سندیپ پانڈے نے کہا کہ مودی حکومت نے کشمیر سے دفعہ 370 ہٹاکر جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ جموں و کشمیر کو دو حصوں میں بانٹنا سراسر غلط ہے، اور ہم کشمیر کے لیے آواز اٹھائیں گے۔ حکومت کو کشمیر کے حالات نارمل رکھنے چاہیے۔ لوگ تذبذب میں مبتلا ہیں اور بڑی بےچینی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔
شیخ عبداللہ تو سیکولر مزاج کے تھے جن کی وجہ سے کشمیر بھارت کے ساتھ جڑا ہے، ورنہ کشمیر کب کا پاکستان میں شامل ہو جاتا۔ اور جو خصوصیت کشمیر کے ساتھ تھی وہی اس کو ترقی یافتہ ریاست بناتی تھیں۔
اور کشمیر تو ترقی کے معاملے میں پہلے سے ہی بھارت کی دیگر ریاستوں سے آگے ہے، گجرات، اترپردیش، بہار اور دیگر ریاستیں کشمیر سے بہت پیچھے ہیں۔ لہٰذا حکومت ان ریاستوں کے لیے بھی ترقی کے اقدامات اٹھائے۔
اگر آپ کی سوچ بھارتی جنتا پارٹی کی سوچ سے مختلف ہے تو آپ کا ہر کام غلط ہے، آپ کو آزادی نہیں ہے آپ کوئی بھی سماجی کام بطور احتجاج نہیں کر سکتے، ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے ملک میں۔
ہمیں بڑا تعجب ہے جب ہم نے کشمیر کے لیے احتجاج کرنا چاہا تو مجھے اور میرے دوست ایڈوکیٹ محمد شعیب کو نظر بند کر دیا گیا۔
اور کشمیر سے خصوصی درجہ ختم کرنے پر ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے یہ مان لیا کہ پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت اس معاملے میں زیادہ بہتر تھی، وہ دفعہ 370 کی منسوخی کے خلاف تھی۔