کورونا اور تبلیغی جماعتوں کے خلاف مسلسل زہر افشانی کرکے اور جھوٹی خبریں اشاعت یا نشر کرکے مسلمانوں کی شبیہ کوداغدار اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی کرنے کی دانستہ سازش کرنے والے ٹی وی چینلز کے خلاف داخل کی گئی جمعیۃعلماء ہند کی عرضی پر کل یعنی 19 جون کو چیف جسٹس آف انڈیا کی عدم موجودگی کی وجہ سے سماعت ٹل گئی ہے۔
اس معاملے میں مدعی بنے جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے ایک پریس ریلیز میں کہاکہ کو سپریم کورٹ آف انڈیا میں تیسری مرتبہ سماعت ہونے والی تھی لیکن چیف جسٹس آف انڈیا کی عدم موجودگی کی وجہ سے سماعت ٹل گی ہے، اب امید ہے کہ سپریم کورٹ کی چھٹی ختم ہونے کے بعد دوبارہ سماعت ہوگی۔
سپریم کورٹ میں کل کے بعد پانچ جولائی تک تعطیل ہے اور چھ جولائی سے سپریم کورٹ کھلے گا۔ جمعیۃ علماء ہند کے وکیل اعجاز مقبول نے چیف رجسٹرارسے معاملے کو جلد از جلد سماعت کے لیئے پیش کیئے جانے کی درخواست کی ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل کی سماعت پر سینئر ایڈوکیٹ دشینت دوے کی بحث کے بعد عدالت نے مرکزی حکومت کے وکیل سے دریافت کیا تھا کہ عرض گذار کو بتائے کہ اس تعلق سے حکومت نے کیبل ٹیلی ویڑن نیٹ ورک قانون کی دفعات 19 اور 20 کے تحت ابتک ان چینلز پر کیا کارروائی کی ہے اس کے ساتھ ہی عدالت نے جمعیۃعلماء ہند کوبراڈ کاسٹ ایسوسی ایشن کو بھی فریق بنانے کا حکم دیا تھا جس کی تکمیل کرتے ہوئے این بی اے کو فریق بنایا دیا گیا جس نے عدالت میں اپنا جواب داخل کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ عرضی گذار کوسپریم کورٹ آنے سے پہلے نیوز چینلوں کی ان سے شکایت کرنی چاہئے تھی اور اگر وہ ان پر معقول کارروائی نہ کرتے تب انہیں سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا نا چاہئے تھا۔
گلزار اعظمی نے کہا کہ 'سپریم کورٹ کی ہدایت پر ابتک ہم پریس کونسل آف انڈیا اور نیوز براڈکاسٹرس ایسو سی ایشن کو فریق بنا چکے ہیں نیز اب امید ہیکہ معاملے کی اگلی سماعت پر عدالت ہماری عرض داشت پر حتمی فیصلہ صادر کردیگی'۔
مولاناارشدمدنی نے اس موقع پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بے لگام میڈیا پرشکنجہ کسنے کے لئے مرکزی حکومت کے ادارے ہیں، میڈیا کی مانیٹرنگ کے لئے بھی ادارے ہیں لیکن کوئی بھی اپنا کام نہیں کررہا ہے اور اگر یہ ادارے کام کر رہے ہوتے تو ہندوستان کا میڈیا بے لگام نہیں ہوتااور اسے ملک کے اتحاد و سالمیت فرقہ وارنہ یکجہتی کی دھجی اڑانے کی ہمیت نہیں ہوتی۔
انہوں نے کہاکہ اگر ان اداروں نے اپنے فرض کی ادائیگی کی ہوتی تو جمعیۃ علمائے ہند کو سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کی کیا ضرورت تھی۔ مولانا مدنی نے بے لگام میڈیا پر شکنجہ کسنے کے اپنے عہد کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ 'متعصب میڈیاپر لگام کسنے کی ہماری قانونی جدوجہد مثبت نتیجہ آنے تک جاری رہے گی۔ ہمارا شروع سے یہ اصول رہا ہے کہ اگر کوئی مسئلہ سیاسی طور پر حل نہیں ہوتا تو ہم اپنے آئینی حق کا استعمال کرتے ہوئے عدالت جاتے ہیں اور ہمیں وہاں سے انصاف بھی ملتا ہے اس معاملہ میں بھی ہمارے تمام تر مطالبات اور گزارشات پرجب کوئی کارروائی نہیں ہوئی اور فرقہ پرست میڈیا نے اپنی فرقہ وارانہ رپورٹنگ کی روش ترک نہیں کی تو ہمیں عدالت کارخ کرنے پر مجبورہونا پڑا اور ہمیں امید ہے کہ دوسرے معاملہ کی طرح اس اہم معاملہ میں بھی ہمیں انصاف ملے گاکیونکہ یہ معاملہ محض مسلمانوں کا نہیں ہے بلکہ ملک کے اتحاد اورقومی یکجہتی سے جڑاہوا معاملہ ہے'۔
اس سے قبل کی سماعت کے موقع پر ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول نے عدالت کی توجہ ان دیڑھ سو نیوز چینلوں اور اخبارات کی جانب دلائی تھی، جنہوں نے صحافتی اصولوں کو تار تار کرتے ہوئے مسلمانوں کی دل آزاری اور قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے کی ناپاک سازش کی تھی۔