سپریم کورٹ میں جسٹس اشوک بھوشن کی سربراہی میں تین ججوں کے بنچ نے گھریلو تشدد ایکٹ 2005 کے سیکشن 2 (ایس) کی وسعت کو وسیع کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا۔ اس حصے میں شوہر کے مشترکہ گھر کی تعریف کی ہے، اس کے مطابق تشدد کے بعد وہاں سے نکالی گئی عورت کو مشترکہ گھر میں رہنے کا حق ہے۔ ابھی تک یہ مشترکہ گھر شوہر کا گھر سمجھا جاتا تھا، چاہے وہ کرایہ پر ہو یا مشترکہ خاندانی گھر جس کا شوہر رکن ہے۔ اس میں سسرالیوں کے گھر شامل نہیں تھے۔
سال 2007 (ایس آر بترا بمقابلہ ترونا بترا) میں، سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ مشترکہ گھروں میں غیر قانونی (سسرال، رشتہ دار) کے مکان شامل نہیں ہوں گے، لیکن اب عدالت عظمی نے اپنے دونوں ججوں کے بنچ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے جمعرات کو کہا کہ سیکشن 2 (ایس) میں مشترکہ گھر کی تعریف صرف شوہر کی رہائش گاہ اور اس کے مشترکہ خاندان کی جائیداد تک ہی محدود نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس میں شوہر کے کسی رشتے دار کا گھر بھی شامل ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: اے ایم یو: سینٹینری گیٹ پر اردو زبان میں بھی لکھا جائے گا نام
عورت کو وہاں کی رہائش گاہ پر بھیجا جاسکتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ اس قانون کا مقصد خواتین کو اعلی حقوق دینا ہے، اس کا مقصد یہ بھی ہے کہ وہ ایسی خواتین کو حقوق کے زیادہ موثر تحفظ فراہم کریں جو خاندان میں گھریلو تشدد کا شکار ہیں۔ ایسی صورتحال میں قانون کی ترجمانی اس کے مقصد کے مطابق ہوگی۔
بنچ دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت کر رہا تھا، اس معاملے میں شوہر کا کہنا تھا کہ اس کا کوئی مکان نہیں ہے اور وہ اپنے والد کے گھر میں رہتا ہے جو خاندانی نہیں ہے، سیکشن 2 کے مطابق اس مکان کو مشترکہ گھرانہ نہیں کہا جاسکتا۔ ٹرائل کورٹ نے شوہر کی درخواست منظور کرتے ہوئے بیوی کو 15 دن میں گھر خالی کرنے کا حکم دے دیا تھا۔
بیوی اس حکم کے خلاف ہائی کورٹ گئی اور ہائی کورٹ نے اس معاملے پر دوبارہ غور کرنے کے لئے ٹرائل کورٹ کو بھیج دیا۔ اس حکم کے خلاف اس کے سسر نے سپریم کورٹ میں اپیل کی ہے۔