چیف جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس وی رام سبرامنیم پر مشتمل بینچ نے اس کیس کی سماعت کرتے ہوئے مرکزی، ہریانہ پنجاب حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے، اب اس معاملے میں آئندہ کل سماعت ہوگی۔
زرعی قوانین پر کسانوں اور مرکزی حکومت کے مابین تعطل برقرار ہے جہاں کسان اپنے مطالبات پر قائم ہیں تو حکومت نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ کسی بھی قیمت پر قانون واپس نہیں لیا جائے گا۔
دہلی بارڈر پر 20 دنوں سے کسان خیمہ زن ہیں، اسی کڑی میں بدھ کا دن کافی اہم ہو سکتا ہے۔ کسانوں کا سرحد پر رہنا صحیح یا غلط ہے، اس سلسلے میں سپریم کورٹ میں آج سماعت ہوگی۔
دراصل دہلی بارڈر پر جاری کسان تحریک کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی ہے، اس کے علاوہ کسانوں کی تحریک سے متعلق سپریم کورٹ میں اب تک تین درخواستیں دائر کی جاچکی ہیں۔
درخواست میں دہلی بارڈر سے کسانوں کو ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ کسانوں کے جمع ہونے سے کورونا انفیکشن کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ کسانوں کو ہٹانا ضروری ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سڑکیں مسدود کردی جارہی ہیں۔ ہنگامی اور طبی خدمات بھی درہم برہم ہو رہی ہیں۔
یہ عرضی قانون کی تعلیم حاصل کرنے والے ریشبھ شرما نے دائر کی ہے۔ درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ مظاہرین کو حکومت کی جانب سے متبادل کردہ مقررہ مقام پر منتقل کیا جائے۔ مظاہرے کے دوران معاشرتی دوری کی پیروی کی جانی چاہیے اور ماسک کا استعمال کیا جانا چاہیے۔
سپریم کورٹ میں کسانوں سے متعلق ایک اور درخواست کی سماعت ہوگی جس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کسانوں کے مطالبے پر غور کرنے کے لیے مرکزی حکومت کو ہدایت کرے۔ درخواست میں این ایچ آر سی کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ کسانوں پر حملے کے سلسلے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ پیش کرے۔
واضح ہو کہ دہلی بارڈر پر زرعی قوانین کے خلاف کسان 20 دنوں سے سراپا احتجاج ہیں، آج ان کے احتجاج کا 21 واں دن ہے، اگر کسان زرعی قوانین سے دستبرداری کے بارے میں اٹل ہیں تو حکومت ترمیم کی تجویز کر رہی ہے۔ کسان یکسر حکومت کی تجویز کو مسترد کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ اپنی تحریک کو بھی تیز کر رہے ہیں۔ کسانوں نے بدھ کے روز دہلی نوئیڈا کو ملانے والی چلہ سرحد کو روکنے کا اعلان کیا ہے۔
کسان تنظیموں کا کہنا تھا کہ حکومت لوگوں کو باہر سے آنے کی اجازت نہیں دے رہی ہے۔ کسان تحریک میں حصہ لینے کے لیے آنا چاہتے ہیں لیکن حکومت انہیں روک رہی ہے۔ یہ حکومت کسانوں کی بات نہیں کرتی بس ٹال مٹول کرتی ہے، کسانوں نے کہا کہ یہ حکومت امبانی اور اڈانی کی حکومت ہے۔ ہم اسے اپنے منصوبوں میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
دوسری جانب وزیر اعظم نریندر مودی منگل کو گجرات کے دورے پر تھے۔ اس دوران انہوں نے کچھ میں حزب اختلاف پر تنقید کی، مودی نے کہا کہ کسانوں کو ڈرانے کی سازش جاری ہے۔ اگر کوئی آپ سے دودھ لینے کا معاہدہ کرتا ہے تو کیا یہ بھینس لے کر چلا جاتا ہے؟ ہم کسانوں کو وہی آزادی دے رہے ہیں جس طرح مویشی پالنے والوں کو آزادی دی جارہی ہے۔