سپریم کورٹ میں روزآنہ کی بنیاد پر بابری۔مسجد رام جنم بھومی کیس کی سماعت جاری ہے، جس میں تقریبا 16 دن تک ہندو فریق کی جانب سے بحث کی گئی اور 2 ستمبر سے مسلم فریق نے جواب دینا شروع کیا ہے۔
اس سے قبل ایودھیا میں رام جنم بھومی۔ بابری مسجد زمین تنازع کی سپریم کورٹ میں بدھ کو 19ویں دن کی سماعت کے دوران ایک مسلم فریق نے کہا ہے کہ 'بھگوان رام کی مورتی کو چبوترے سے ہٹا کر بیچ والے گنبد کے نیچے رکھ دیا گیا تھا، ایسے میں 'جنم استھان' لفظ بے معنی ہے'۔
مسلم فریق کے سینیئر وکیل راجیو دھون نے چیف جسٹس رنجن گوگوئی، جسٹس ایس کے بوبڈے، جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس ایس عبدالنظیر کی پانچ رکنی آئینی بنچ کو بتایا کہ ہندوؤں نے 1885 میں رگھوور داس کے مہنت ہونے سے انکار کردیا تھا ور بعد میں اسے قبول کرلیا۔
سپریم کورٹ کے سامنے الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف کئی عرضیاں دائر کی گئی ہیں جن کے تحت ایودھیا کے متنازع زمین کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔
ڈاکٹر دھون نے عرضی گذار اقبال انصاری پر ہوئے حملے کو بدقسمتی قرار دیا۔ انہوں نے بنچ سے جب یہ مسئلہ حل کرنے کو کہا تو انہوں نے دیگر جسٹسز کے ساتھ بات چیت کے بعد کہا کہ ہم اس معاملے کو یقینی طور پر دیکھیں گے۔
وکیل نے اس پر خصوصی توجہ دیئے جانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ کسی پر الزام نہیں لگارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ ان کے دہلی میں واقع اس مکان پر حملہ ہوا جس میں ایک تالا تک نہیں لگا ہوا تھا لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ انصاری کو پولیس پروٹیکشن مہیا کرانے کے باوجود ان پر حملہ کیسے ہوا۔
واضح رہے کہ اس تنازع کو ثالث کے ذریعہ حل کرنے کی سبھی کوششیں ناکام رہنے کے بعد سپریم کورٹ نے گزشتہ 6 اگست سے روز مرہ کی بنیاد پر اس معاملے کی سماعت کی جارہی ہے۔
چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس رنجن گوگوئی کی قیادت میں سپریم کورٹ کی پانچ رکنی آئینی بنچ بابری مسجد۔رام جنم بھومی کیس کی سماعت کر رہی ہے۔