ایک جمہوری ملک میں شہریوں کو آئینی طور پر احتجاج کرنے کا حق حاصل ہے۔عدالت نے یہ بات قانون سازیہ کے ممبران اور آئینی اداروں کے حکام کو یاد دلائی ہے۔ایسے دور میں جہاں حکومت اپنے سیاہ اقدامات لینے کے نیتجے میں عوام کے حقوق کو عامرانہ طور پر دبانا چاہتی ہے ، ایسے میں سپریم کورٹ کے سہ رکنی بینچ کا سرکاری فیصلہ یقنیا روشنی کے مانند ہے۔مرکزی حکومت کے ذریعہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو واپس لیے جانے والے فیصلے کے بعد سے جموں و کشمیر میں نافذ پابندیوں اور ٹیلی فون و انٹرنیٹ سروس کی معطلی کو لے کر 'کشمیر ٹائمز' کے مدیر اور سابق وزیراعلی غلام نبی آزاد نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔بعدازاں شہریت ترمیمی قانون اور اس سے متعلقہ نیشنل ریزیڈنٹس کمیشن نے ملک کے مختلف شہروں اور قصبہ جات میں خدشات میں مزید اضافہ کردیا ہے جس کے نتیجے میں لوگ احتجاج کرنے پر مجبور ہے۔چناچہ حکومت ملک کے مختلف حصے میں ہورہے اس احتجاج کو ٹھیک انہیں خطوط پر زیر کرنا چاہتی ہے جس طرح کشمیر میں آج تک کیا جاتا رہا ہے۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ،جسٹس این اے بوبڈے،کے دانشمندانہ ردعمل کے سیاق و سباق میں جسٹس پی وی رمانا،جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس آر سبھاش ریڈی کے سہ رکنی بینچ نے تینوں اہم معاملات کو چھیڑتے ہوئے متعلقہ سرکاروں کو انکی ذمہ داریاں یاد دلائیں۔
سپریم کورٹ کے بینچ نے یہ بات واضح کردی ہے ، حالانکہ اس نے 16اکتوبر کو احکامات جاری کیے تھے لیکن حکومت نے ابھی امتناعی احکامات واپس نہیں لیے ہیں۔ایک جمہوری نظام میں جہاں شفافیت اور جوابدہی ساتھ ساتھ رہنی چاہیے اور حکومتوں کے لیے ایسے احکامات جاری کرنا لازمی ہے۔ عدالت نے سرکار کو یاد دلاتے ہوئے کہا کہ پریس کی آزادی آئین کا مہیا کردہ سب سے مقدس حق ہے۔اتنا ہی نہیں بلکہ عدالت نے یہ بات بھی واضح کر دیاکہ صحافیوں کے سر پر تلوار لٹکانا جائز نہیں ہے۔اس نے یہ بھی واضح کیا کہ سی آر پی سی کے تحت جاری کردہ امتناعی احکامات اور انٹرنیٹ کے استعمال پر لگائی گئی پابندی مناسب نہیں ہے اور یہ احکامات سچی جمہوریت کے لیے چنگاریوں کا کام کریں گی۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کی ڈینگیں مارنا کافی نہیں ہے جب بدقسمتی سے ملک کے رہنماء قانونی طور پر جائز احتجاج کی اجازت نہیں دیتے اور اس عمل سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جمہوریت آخری سانسیس لے رہا ہو۔ایسے امتناعی احکامات جو سماج میں امن و قانون کی صورتحال کو بگاڑ سکتے ہیں ایسے صورت حال کو بچانے کے لیے 1861 میں واضح کیا گیا تھا اور ساتھ میں انڈین کرمینل پروسیجر کوڈ 1973 میں جگہ بھی پاچکے ہیں۔
چناچہ شہریوں کی آزادی ہے کہ وہ احتجاج کرے اور حکومت کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اس بات کو یقنی بنائیں کہ لوگ بے قابو ہوکر سماجی بہبود کو نقصان نہ پہنچائیں اور سماج کا توازن برقرار رہے۔لیکن اس کا نتیجہ امتناعی احکامات کے نفاذ اور لاٹھی چارج کے ذریعہ خون خرابے کی صورت میں نکلتا ہے اور لوگوں کے آئینی حقوق کی مجموعی طور پر خلاف ورزی ہوتی ہے۔سپریم کورٹ جس نے دفعہ 144 کی آئینی جوازیت کا 1970 میں جائزہ لیا اور خود تجویز کی کہ اس دفعہ کو کب اور کون سے بنیادوں پر استعمال کیا جانا چاہیے۔عدالت نے ساتھ ہی 144 لگائے جانے کے دوران آئین کی دفعہ 19 کے تحت مناسب پابندیون کے نفاذ کی تفصیلات بھی بتائی ہیں۔ عدالت نے بلکہ اس بات پر حیرانگی کا اظہار بھی کیا ہے اور کیا سیکشن144کے استعمال کا منصفانہ طریقے پر جائزہ لیا گیا تھا اور 'مناسب پابندیوں' کا خیال بھی رکھا گیا تھا۔ساتھ میں 2016-17 میں اس کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا تھا لیکن ایسی کوئی مثال نہیں ہے کہ جہاں حکومت نے ان ہدایات پر عمل کیا ہو۔
شہریت ترمیمی قانون کے سیاق و سباق میں 22 کروڑ کی آبادی والے اترپردیش میں محض ایک ٹوئیٹ کے ذریعہ سیکشن 144 نافذ کردیا گیا جو مطلق العنانیت کی ایک واضح مثال تھی۔کرناٹک ہائی کورٹ نے سوال کیا ہے کہ کیا حکومت اس بہانے امتناعی احکامات جاری کرسکتی ہے کہ ہر احتجاج پرتشدد ہوسکتا ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد آندھرا پردیش کے دیہی باشندوں نے شاید ہی کوئی راحت رساں اثر دیکھ ہوگا جہاں امتناعی احکامات کے نفاذ کے بعد وہاں ہورہے احتجاجیوں پر بے خوف سرکاری غنڈوں نے لاٹھیاں اٹھا لی ہیں۔
سہ رکنی آئینی بینچ نے شفافیت کے ساتھ یہ فیصلہ دیا کہ سیکشن 144 کو حکومتوں کے ہاتھ کا ہتھیار نہیں بننا چاہیے جس کے تحت جاری کیے جانے والے امتناعی احکامات، اظہار رائے کی آزادی اور شکایت بیان کرنے والے خیالات کی آئینی روح کو ختم کردیا جاتا ہے۔
یہ بات بھی واضح ہے کہ اندھادھند اور من مرضی کے مطابق جاری کئے جانے والے احکامات مناسب نہیں ہیں بلکہ امتناعی احکامات تب ہی جاری کئے جانے چاہیئے جب امن و قانون کو خطرہ لاحق محسوس ہورہا ہو۔یہ سبھی احکامات کا جائزہ لیے جانے کے ساتھ مشروط ہیں اور ان کا عوامی سطح پر اعلان کیا جانا چاہیئے تاکہ متاثرین کو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے میں مدد مل سکے۔سپریم کورٹ کے یہ احکامات واقع قابلِ تعریف ہیں۔
اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ بھارت فقط عراق اور سوڈان کے بعد انٹرنیٹ پر پابندی لگانے والا تیسرا ملک ہے اور اس سے بھارت کو دس ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوتا ہے۔عدالت نے انٹرنیٹ میں رکاوٹ ڈالنے یا اسے بند کرنے کو بھی شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحت بتاتے ہوئے ایسی کارروائیوں کو روکنے کے لیے لکیر کھینچی ہے۔
عدالت نے قابلِ تعریف انداز میں سرکار کو انٹرنیٹ سروس بحال کرنے کیلئے کہا ہے۔70سال سے بطورِ ملک میں ایک جمہوری نظام ہونے کے باوجود مرکزی یا ریاستی حکومتوں نے اس کی زیادہ قدر نہیں کی ہے لیکن تاہم عدلیہ،جو شہریوں کے آئینی حقوق کے تحفظ کیلئے پہل کرتی رہی ہے،نہ صرف قابلِ تعریف ہے بلکہ مستقبل کیلئے روشنی کی کرن بھی ہیں۔