ETV Bharat / bharat

غلام نبی آزاد کے مستقبل سے متعلق قیاس آرائیاں - speculations

کانگریس کے سینئر رہنما غلام نبی آزاد کے سیاسی مستقبل کے سلسلے میں بہت سی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔ آزاد کی راجیہ سبھا کی میعاد فروری 2021 کو اختتام پذیر ہوگی۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ پیش ہے سیاسی مبصر اور معروف تجزیہ کار امت اگنیہوتری کی تحریر:

speculations about the future of ghulam nabi azad
غلام نبی آزاد کے مستقبل سے متعلق قیاس آرائیاں
author img

By

Published : Sep 1, 2020, 7:31 AM IST

کانگریس کے 23 سنیئر رہنماووں کے متنازعہ خط کے کئی دنوں بعد راجیہ سبھا میں حزب اختلاف کے رہنما غلام نبی آزاد کے مستقبل کے کردار پر پارٹی حلقوں میں قیاس آرائیاں میں شروع ہوگئی ہیں۔

آزاد کی راجیہ سبھا کی پانچویں میعاد 15 فروری 2021 کو ختم ہوگی اور پارٹی کے لئے انہیں پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں دوبارہ منتخب کروانا تقریبا ناممکن ہوگا۔

پانڈیچری میں کچھ امید پیدا ہوسکتی ہے، جہاں اے آئی اے ڈی ایم (کے) کے این گوکلکرشنن کی نمائندگی والی نشست اکتوبر 2021 میں خالی ہوجائے گی لیکن یہ راستہ اسی صورت میں ہموار ہوگا، جب کانگریس آئندہ برس مئی میں اقتدار میں واپس آنے میں کامیاب ہوجائے گی۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ آزاد کو مارچ 2022 میں راجیہ سبھا انتخابات کے اگلے مرحلے تک انتظار کرنا پڑے گا اور اگر کوئی مناسب جگہ موجود ہو تب ہی ایوان بالا میں دوبارہ داخلے کا موقع مل سکتا ہے۔ سیاسی تبصرہ نگاران کا ماننا ہے کہ امکانات کم ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔

راجیہ سبھا میں آزاد سابقہ ریاست جموں و کشمیر کی نمائندگی کرتے ہیں، جسے سنہ 2019 میں لداخ کے ساتھ ساتھ مرکزی زیر انتظام علاقہ میں بھی تبدیل کردیا گیا تھا۔

اگرچہ وزیراعظم مودی نے حال ہی میں واضح کیا ہے کہ مستقبل میں مرکزی زیرانتظام جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات ہوں گے، لیکن انتخابی حلقوں کی حد بندی مارچ 2021 تک مکمل ہونے کے بعد ہی اس سلسلے میں کچھ کہا جاسکتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پارٹی میں 2015 میں راجیہ سبھا کے دوبارہ آزاد کے انتخاب پر بہت تذبذب تھا جب سیاست دان نیشنل کانفرنس کے اراکین کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ کانگریس کے منتظمین کے لئے کسی بھی دوسری ریاست میں غلام نبی آزاد کو دوبارہ منتخب کرانا ناممکن ہوگا۔

اس وقت پنجاب، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کانگریس کی حکومت ہے جہاں سے راجیہ سبھا کے نمائندے منتخب ہوئے ہیں۔ دوسری ریاستیں جہاں کانگریس حزب اختلاف میں ہے لیکن اس میں قابل تعداد قانون ساز ہیں وہ کرناٹک، مدھیہ پردیش اور گجرات ہیں لیکن یہاں بھی ایوان بالا میں نمائندے منتخب ہوئے ہیں۔ مہاراشٹر سے بھی کوئی امید نہیں ہے جہاں کانگریس حکمران شیو سینا- این سی پی- کانگریس اتحاد کا حصہ ہے کیونکہ مغربی ریاست میں راجیہ سبھا انتخابات ختم ہوگئے ہیں۔

اگرچہ آزاد کی ایوان بالا میں واپسی کے بارے میں جاری قیاس آرائیاں اور اس حقیقت کے درمیان کوئی واضح ربط نہیں ہے کہ ان کا نام امیدواری کی فہرست میں نمایاں طور پر نکلا ہے، لیکن پارٹی کے اندرونی ذرائع نے بتایا کہ راجیہ سبھا کی رکنیت چلے جانے سے غالبا سیاست دانوں کے لئے راجیہ سبھا جانا آسان نہیں ہوگا ۔

غلام نبی آزاد کے پاس پھر کانگریس کے کل ہند جنرل سیکریٹری اور ہریانہ کے انچارج کا عہدہ ہی بچ جائے گا، جس پر وہ گزشتہ برس فائز تھے۔ آزاد کو چار برس قبل اترپردیش کا انچارج بنایا گیا۔ تاکہ اسمبلی سے پہلے پارٹی کو سیاسی طور پر انتہائی اہم حالت میں بحال کیا جاسکے۔

آزاد کی سربراہی میں کانگریس نے سماج وادی پارٹی کے ساتھ مل کر کام کرنے کا فیصلہ کیا، تاہم پارٹی کے منصوبہ سازوں کی نظر سے یہ اقدام ایک 'تباہی' ثابت ہوا ۔

حال ہی میں یوپی کانگریس کے سابق سربراہ نرمل کھتری نے 2017 کے انتخابات میں پارٹی کی ناقص کارکردگی کا ذکر کیا۔ انہوں نے اختلافی خط میں آزاد کا بھی ذکر کیا۔ یوپی یونٹ کے ایک اور رہنما نصیب پٹھان نے اس معاملے پر آزاد کی برطرفی کا مطالبہ کیا۔

پارٹی کے اندرونی ذرائع نے کہا کہ آزاد کے لئے کانگریس صدر کے عہدے سے لے کر ضلعی سطح تک داخلی انتخابات کا مطالبہ کرنے والے گروپ کے پیچھے اپنا وزن ڈالنا آسان نہیں ہوگا۔

ابھی کانگریس کے عبوری سربراہ سونیا گاندھی اور سابق چیف راہول گاندھی نے آزاد کو یقین دلایا ہے کہ ان کے اٹھائے ہوئے امور پر توجہ دی جائے گی۔

اس کے برعکس مستقبل قریب میں اے آئی سی سی میں کوئی بھی معمولی رد و بدل ہریانہ میں ہوسکتا ہے۔ جس طرح سونیا گاندھی اور راہول گاندھی کے وفادار اور راہول کے قریبی ساتھی اجے ماکن کو اچانک راجستھان کا انچارج بنایا گیا اور اویناش پانڈے کی جگہ عہدہ دیا گیا تھا۔ اسی طرح کسی کو بھی سونیا گاندھی کی سربراہی میں پارٹی کو جولائی میں عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

ایک اور معاملہ جو پارٹی میں زیربحث ہے وہ یہ ہے کہ آزاد کی عدم موجودگی میں راجیہ سبھا میں قائد حزب اختلاف کا عہدہ کون سنبھالیں گے۔

تکنیکی طور پر یہ عہدہ آنند شرما کے پاس جانا چاہئے، جو طویل عرصے سے آزاد کے نائب کا کردار ادا کررہے ہیں اور اہم پارلیمانی عہدے کا فطری دعویدار ہوں گے۔ تاہم پارٹی کے اندرونی ذرائع نے بتایا کہ شرما بھی اس متنازعہ خط پر دستخط کرنے والوں میں شامل تھے۔ پارٹی کے اندرونی ذرائع نے کہا کہ ان کی ترقی کے امکانات کو محدود کیا جاسکتا ہے۔ شرما کی راجیہ سبھا کی میعاد اپریل 2022 میں ختم ہورہی ہے۔

اگرچہ پارٹی منتظمین اس معاملے کو گلے لگانے کے لئے تیار نہیں ہیں، لیکن کرناٹک کے سینئر رہنما ملک ارجن کھڑگے، جو رواں برس ایوان بالا کے لئے منتخب ہوئے اور 2026 تک رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دیں گے۔ ان کا نام پارٹی حلقوں میں غیر رسمی طور پر زیرگفتگو ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ سونیا کے وفادار کھڑگے کا نام اختلاف رائے دہندگان کی فہرست میں شامل نہیں تھا اور شاید وہ دلت رہنما کی امیدوار کی حیثیت میں اپنی قدر و قیمت بڑھا سکتے ہیں، جبکہ وہ نو بار ایم ایل اے اور دو مرتبہ لوک سبھا رکن رہنے کے علاوہ اتر پردیش میں وزیر بھی رہے ہیں۔

کانگریس کے 23 سنیئر رہنماووں کے متنازعہ خط کے کئی دنوں بعد راجیہ سبھا میں حزب اختلاف کے رہنما غلام نبی آزاد کے مستقبل کے کردار پر پارٹی حلقوں میں قیاس آرائیاں میں شروع ہوگئی ہیں۔

آزاد کی راجیہ سبھا کی پانچویں میعاد 15 فروری 2021 کو ختم ہوگی اور پارٹی کے لئے انہیں پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں دوبارہ منتخب کروانا تقریبا ناممکن ہوگا۔

پانڈیچری میں کچھ امید پیدا ہوسکتی ہے، جہاں اے آئی اے ڈی ایم (کے) کے این گوکلکرشنن کی نمائندگی والی نشست اکتوبر 2021 میں خالی ہوجائے گی لیکن یہ راستہ اسی صورت میں ہموار ہوگا، جب کانگریس آئندہ برس مئی میں اقتدار میں واپس آنے میں کامیاب ہوجائے گی۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ آزاد کو مارچ 2022 میں راجیہ سبھا انتخابات کے اگلے مرحلے تک انتظار کرنا پڑے گا اور اگر کوئی مناسب جگہ موجود ہو تب ہی ایوان بالا میں دوبارہ داخلے کا موقع مل سکتا ہے۔ سیاسی تبصرہ نگاران کا ماننا ہے کہ امکانات کم ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔

راجیہ سبھا میں آزاد سابقہ ریاست جموں و کشمیر کی نمائندگی کرتے ہیں، جسے سنہ 2019 میں لداخ کے ساتھ ساتھ مرکزی زیر انتظام علاقہ میں بھی تبدیل کردیا گیا تھا۔

اگرچہ وزیراعظم مودی نے حال ہی میں واضح کیا ہے کہ مستقبل میں مرکزی زیرانتظام جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات ہوں گے، لیکن انتخابی حلقوں کی حد بندی مارچ 2021 تک مکمل ہونے کے بعد ہی اس سلسلے میں کچھ کہا جاسکتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پارٹی میں 2015 میں راجیہ سبھا کے دوبارہ آزاد کے انتخاب پر بہت تذبذب تھا جب سیاست دان نیشنل کانفرنس کے اراکین کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ کانگریس کے منتظمین کے لئے کسی بھی دوسری ریاست میں غلام نبی آزاد کو دوبارہ منتخب کرانا ناممکن ہوگا۔

اس وقت پنجاب، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کانگریس کی حکومت ہے جہاں سے راجیہ سبھا کے نمائندے منتخب ہوئے ہیں۔ دوسری ریاستیں جہاں کانگریس حزب اختلاف میں ہے لیکن اس میں قابل تعداد قانون ساز ہیں وہ کرناٹک، مدھیہ پردیش اور گجرات ہیں لیکن یہاں بھی ایوان بالا میں نمائندے منتخب ہوئے ہیں۔ مہاراشٹر سے بھی کوئی امید نہیں ہے جہاں کانگریس حکمران شیو سینا- این سی پی- کانگریس اتحاد کا حصہ ہے کیونکہ مغربی ریاست میں راجیہ سبھا انتخابات ختم ہوگئے ہیں۔

اگرچہ آزاد کی ایوان بالا میں واپسی کے بارے میں جاری قیاس آرائیاں اور اس حقیقت کے درمیان کوئی واضح ربط نہیں ہے کہ ان کا نام امیدواری کی فہرست میں نمایاں طور پر نکلا ہے، لیکن پارٹی کے اندرونی ذرائع نے بتایا کہ راجیہ سبھا کی رکنیت چلے جانے سے غالبا سیاست دانوں کے لئے راجیہ سبھا جانا آسان نہیں ہوگا ۔

غلام نبی آزاد کے پاس پھر کانگریس کے کل ہند جنرل سیکریٹری اور ہریانہ کے انچارج کا عہدہ ہی بچ جائے گا، جس پر وہ گزشتہ برس فائز تھے۔ آزاد کو چار برس قبل اترپردیش کا انچارج بنایا گیا۔ تاکہ اسمبلی سے پہلے پارٹی کو سیاسی طور پر انتہائی اہم حالت میں بحال کیا جاسکے۔

آزاد کی سربراہی میں کانگریس نے سماج وادی پارٹی کے ساتھ مل کر کام کرنے کا فیصلہ کیا، تاہم پارٹی کے منصوبہ سازوں کی نظر سے یہ اقدام ایک 'تباہی' ثابت ہوا ۔

حال ہی میں یوپی کانگریس کے سابق سربراہ نرمل کھتری نے 2017 کے انتخابات میں پارٹی کی ناقص کارکردگی کا ذکر کیا۔ انہوں نے اختلافی خط میں آزاد کا بھی ذکر کیا۔ یوپی یونٹ کے ایک اور رہنما نصیب پٹھان نے اس معاملے پر آزاد کی برطرفی کا مطالبہ کیا۔

پارٹی کے اندرونی ذرائع نے کہا کہ آزاد کے لئے کانگریس صدر کے عہدے سے لے کر ضلعی سطح تک داخلی انتخابات کا مطالبہ کرنے والے گروپ کے پیچھے اپنا وزن ڈالنا آسان نہیں ہوگا۔

ابھی کانگریس کے عبوری سربراہ سونیا گاندھی اور سابق چیف راہول گاندھی نے آزاد کو یقین دلایا ہے کہ ان کے اٹھائے ہوئے امور پر توجہ دی جائے گی۔

اس کے برعکس مستقبل قریب میں اے آئی سی سی میں کوئی بھی معمولی رد و بدل ہریانہ میں ہوسکتا ہے۔ جس طرح سونیا گاندھی اور راہول گاندھی کے وفادار اور راہول کے قریبی ساتھی اجے ماکن کو اچانک راجستھان کا انچارج بنایا گیا اور اویناش پانڈے کی جگہ عہدہ دیا گیا تھا۔ اسی طرح کسی کو بھی سونیا گاندھی کی سربراہی میں پارٹی کو جولائی میں عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

ایک اور معاملہ جو پارٹی میں زیربحث ہے وہ یہ ہے کہ آزاد کی عدم موجودگی میں راجیہ سبھا میں قائد حزب اختلاف کا عہدہ کون سنبھالیں گے۔

تکنیکی طور پر یہ عہدہ آنند شرما کے پاس جانا چاہئے، جو طویل عرصے سے آزاد کے نائب کا کردار ادا کررہے ہیں اور اہم پارلیمانی عہدے کا فطری دعویدار ہوں گے۔ تاہم پارٹی کے اندرونی ذرائع نے بتایا کہ شرما بھی اس متنازعہ خط پر دستخط کرنے والوں میں شامل تھے۔ پارٹی کے اندرونی ذرائع نے کہا کہ ان کی ترقی کے امکانات کو محدود کیا جاسکتا ہے۔ شرما کی راجیہ سبھا کی میعاد اپریل 2022 میں ختم ہورہی ہے۔

اگرچہ پارٹی منتظمین اس معاملے کو گلے لگانے کے لئے تیار نہیں ہیں، لیکن کرناٹک کے سینئر رہنما ملک ارجن کھڑگے، جو رواں برس ایوان بالا کے لئے منتخب ہوئے اور 2026 تک رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دیں گے۔ ان کا نام پارٹی حلقوں میں غیر رسمی طور پر زیرگفتگو ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ سونیا کے وفادار کھڑگے کا نام اختلاف رائے دہندگان کی فہرست میں شامل نہیں تھا اور شاید وہ دلت رہنما کی امیدوار کی حیثیت میں اپنی قدر و قیمت بڑھا سکتے ہیں، جبکہ وہ نو بار ایم ایل اے اور دو مرتبہ لوک سبھا رکن رہنے کے علاوہ اتر پردیش میں وزیر بھی رہے ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.