ETV Bharat / bharat

بھارت کے تعلیمی نظام کی ابتر صورتحال پر خصوصی رپورٹ

ملک کے دوسرے صدر جمہوریہ اور ماہر تعلیم سروپلی رادھا کرشنن نے سات دہائی قبل یہ بات کہی تھی کہ 'بھارت کو اپنے اعلی تعلیمی میدان میں بہتری کرنے کی ضرورت ہے'۔

بھارت کے تعلیمی نظام کی ابتر صورتحال پر خصوصی رپورٹ
author img

By

Published : Oct 16, 2019, 11:46 PM IST

گذشتہ ماہ لندن کی ٹائمز ہائر ایجوکیشن میگزین نے اپنے سروے میں دنیا کے تین سو ممتاز ترین یونیورسٹیوں کا جائزہ لیا اور ایک فہرست شائع کی۔ لیکن افسوسناک پہلو یہ رہا کہ اس فہرست میں بھارت کی ایک بھی یونیسورسٹی شامل نہیں ہوئی۔

ایک دوسری حقیقت یہ بھی ہے کہ اعلی تعلیم کے لیے بیرون ممالک جانے والے طلباء کی تعداد میں بھارت کو دوسرا مقام حاصل ہے۔

سرکاری رپورٹ کے مطابق سنہ 2017 سے 2018 کے دوران بھارتی طلباء نے بیرون ممالک کی اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے 280 کروڑ امریکی ڈالر خرچ کیے۔ وہیں سنہ 2015 سے2016 کے دوران بھارت میں اعلی تعلیم حاصل کرنے والے طلباء نے 55 کروڑ امریکی ڈالر خرچ کیے جو 2017سے 2018 کے دوران گھٹ کر 47 کروڑ امریکی ڈالر ہوگیا۔

وہیں بھارت کے قومی یونیسورسٹی میں تعلیم حاصل کررہے بیرونی طلباء کے معاملے میں بھارت کو 26 واں مقام حاصل ہے۔

سنہ 2023 تک نیتی آیوگ کا مقصد ہے کہ وہ ہر سال دو لاکھ طلباء کو بھارتی یونیورسٹی میں داخلہ لینے کی طرف راغب کرے گا۔ بنگلورو، حیدرآباد، احمد آباد، پونے، چنڈی گڑھ اور سکم میں خصوصی تعلیمی کمیٹی کے قیام کی بھی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق قومی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کررہے 46 ہزار بیرونی طلباء ہیں جس میں 60 فیصدی طلباء کا تعلق جنوبی ایشیائی ممالک سے ہے۔ نیتی آیوگ نے یوگا، میوزیک انجینیئرنگ اور مینجمنٹ جیسے قلیل مدتی ڈگری کورسز شامل کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ حکومت آئندہ سال تک بھارت کو تعلیمی مرکز بنانے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔

پروفیسر یش پال کمیٹی کے مطابق یونیورسٹیاں تخلیقی صلاحیتوں اور جدید نظریات کے لیے بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ مغربی یونیورسٹی کے وجود میں آنے سے قبل ہی بھارتی یونیورسٹی جیسے نالندہ، تکشیلہ، سارناتھ، امراوتی اور بنارس یونیورسٹی ترقی یافتہ تھیں، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بھارت اپنے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے بجائے ماضی کی ان شاندار یادوں کو یاد کرنے میں ہی مست ہے۔ ملک میں اہم تعلیمی اصلاحات کو نافذ کرنے کی تجویز پیش کیے ہوئے نیشنل نالیج کمیشن کو 14 سال کا وقفہ گزر گیا لیکن اس سے متعلق ابھی تک کوئی خاص قدم نہیں اٹھایا گیا۔ اگر ماضی میں ٹھوس اور مناسب اقدامات اٹھائے گئے ہوتے تو ہمارے تعلیمی نظام کو اس بدتر حالت سے گزرنا نہیں پڑتا۔

چار مرکزی وزارت کی جانب سے اجتماعی طور پر ایسے بھارتی پروگرام کی تشکیل کی گئی جس کا مقصد ہے کہ فیس میں کمی اور اسکلرشپ دے کر بھارتی مطالعاتی مراکز کو 30 بیرونی ممالک تک بڑھانا ہے۔ حال ہی میں بھارتی حکومت نے عالمی معیار کی یونیورسٹیز کی تعمیر کے لیے چار سو کروڑ روپے کا مختص کیا ہے۔ل یکن ایسی اسکیم کا کیا فائدہ جو تعلیمی معیار کو بہتر نہ کرسکے۔

حالانکہ بھارت میں 757 یونیورسٹیز، 38 ہزار کالجز اور 11 ہزار 922 تعلیمی ادارے موجود ہیں جس میں سے کچھ یونیورسٹی ہی بیرونی طلباء کو متاثر کرپاتی ہیں۔ بیرونی طلباء کی تعداد میں نیپال سے 24.9 فیصد، افغانستان سے 9.5 فیصد، سوڈان سے 4.8 فیصد، بھوٹان سے 4.3 فیصد اور نائیجیریا سے 4 فیصد ہی طلبا تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ جو ہماری تعلیم نظام کے حالات کو واضح کرتے ہیں۔

وزارت فروغ انسانی وسائل نے اعلی تعلیم کو بہتر بنانے کے مقصد سے ایک پانچ سالہ ایجوکیشن کوالیٹی اپ گریڈیشن اینڈ انکلوژن پروگرام کی شروعات کی تھی۔ اس پروگرام کی سربراہی 10 ماہرین گروپ نے کی۔ انہوں نے اس کے پیش نظر متعدد ہدایات مرتب کیں اور اس منصوبے کے لیے پانچ سال کے دوران ڈیڑھ لاکھ روپے کا بجٹ جاری کیا۔

واقعہ یہ بھی ہے کہ چین اپنے تعلیمی بجٹ کے لیے 56 ہزار پانچ سو کروڑ امریکی ڈالر خرچ کرتا ہے جس میں سے صرف اعلی تعلیم کے لیے 14 ہزار پانچ سو امریکی ڈالر آتے ہیں۔ چین کے مقابلے بھارت تعلیمی شعبے میں 1،240 کروڑ امریکی ڈالر خرچ کرتا ہے، جس میں اعلی تعلیم کے لیے صرف 450 کروڑ امریکی ڈالر ہی خرچ کیے جاتے ہیں۔

یو پی اے حکومت کے دوسرے دور اقتدار کے دوران غیر ملکی یونیورسٹیز اور کالجز کے بنیادی ڈھانچے کی طرز پر یہاں کی یونیورسٹیز کی تعمیر کے لیے جو بل پیش کیا گیا تھا اس پر توجہ نہیں دی گئی۔ این ڈی اے حکومت نے نیشنل ایجوکیشن پالیسی کے مسودے میں کہا کہ وہ بھارت میں دنیا کی مشہور یونیورسٹیز کی شاخیں قائم کرنے کی طرف کام کر رہی ہے۔

تعلیم ہی وہ چھڑی ہے جو ہمیں ترقی دلا سکتی ہے۔ بھارت میں تعلیم کی خراب حالت کے پیش نظر ایک مکمل تعلیمی اصلاح اور انقلاب کی ضرورت ہے۔

گذشتہ ماہ لندن کی ٹائمز ہائر ایجوکیشن میگزین نے اپنے سروے میں دنیا کے تین سو ممتاز ترین یونیورسٹیوں کا جائزہ لیا اور ایک فہرست شائع کی۔ لیکن افسوسناک پہلو یہ رہا کہ اس فہرست میں بھارت کی ایک بھی یونیسورسٹی شامل نہیں ہوئی۔

ایک دوسری حقیقت یہ بھی ہے کہ اعلی تعلیم کے لیے بیرون ممالک جانے والے طلباء کی تعداد میں بھارت کو دوسرا مقام حاصل ہے۔

سرکاری رپورٹ کے مطابق سنہ 2017 سے 2018 کے دوران بھارتی طلباء نے بیرون ممالک کی اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے 280 کروڑ امریکی ڈالر خرچ کیے۔ وہیں سنہ 2015 سے2016 کے دوران بھارت میں اعلی تعلیم حاصل کرنے والے طلباء نے 55 کروڑ امریکی ڈالر خرچ کیے جو 2017سے 2018 کے دوران گھٹ کر 47 کروڑ امریکی ڈالر ہوگیا۔

وہیں بھارت کے قومی یونیسورسٹی میں تعلیم حاصل کررہے بیرونی طلباء کے معاملے میں بھارت کو 26 واں مقام حاصل ہے۔

سنہ 2023 تک نیتی آیوگ کا مقصد ہے کہ وہ ہر سال دو لاکھ طلباء کو بھارتی یونیورسٹی میں داخلہ لینے کی طرف راغب کرے گا۔ بنگلورو، حیدرآباد، احمد آباد، پونے، چنڈی گڑھ اور سکم میں خصوصی تعلیمی کمیٹی کے قیام کی بھی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق قومی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کررہے 46 ہزار بیرونی طلباء ہیں جس میں 60 فیصدی طلباء کا تعلق جنوبی ایشیائی ممالک سے ہے۔ نیتی آیوگ نے یوگا، میوزیک انجینیئرنگ اور مینجمنٹ جیسے قلیل مدتی ڈگری کورسز شامل کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ حکومت آئندہ سال تک بھارت کو تعلیمی مرکز بنانے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔

پروفیسر یش پال کمیٹی کے مطابق یونیورسٹیاں تخلیقی صلاحیتوں اور جدید نظریات کے لیے بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ مغربی یونیورسٹی کے وجود میں آنے سے قبل ہی بھارتی یونیورسٹی جیسے نالندہ، تکشیلہ، سارناتھ، امراوتی اور بنارس یونیورسٹی ترقی یافتہ تھیں، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بھارت اپنے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے بجائے ماضی کی ان شاندار یادوں کو یاد کرنے میں ہی مست ہے۔ ملک میں اہم تعلیمی اصلاحات کو نافذ کرنے کی تجویز پیش کیے ہوئے نیشنل نالیج کمیشن کو 14 سال کا وقفہ گزر گیا لیکن اس سے متعلق ابھی تک کوئی خاص قدم نہیں اٹھایا گیا۔ اگر ماضی میں ٹھوس اور مناسب اقدامات اٹھائے گئے ہوتے تو ہمارے تعلیمی نظام کو اس بدتر حالت سے گزرنا نہیں پڑتا۔

چار مرکزی وزارت کی جانب سے اجتماعی طور پر ایسے بھارتی پروگرام کی تشکیل کی گئی جس کا مقصد ہے کہ فیس میں کمی اور اسکلرشپ دے کر بھارتی مطالعاتی مراکز کو 30 بیرونی ممالک تک بڑھانا ہے۔ حال ہی میں بھارتی حکومت نے عالمی معیار کی یونیورسٹیز کی تعمیر کے لیے چار سو کروڑ روپے کا مختص کیا ہے۔ل یکن ایسی اسکیم کا کیا فائدہ جو تعلیمی معیار کو بہتر نہ کرسکے۔

حالانکہ بھارت میں 757 یونیورسٹیز، 38 ہزار کالجز اور 11 ہزار 922 تعلیمی ادارے موجود ہیں جس میں سے کچھ یونیورسٹی ہی بیرونی طلباء کو متاثر کرپاتی ہیں۔ بیرونی طلباء کی تعداد میں نیپال سے 24.9 فیصد، افغانستان سے 9.5 فیصد، سوڈان سے 4.8 فیصد، بھوٹان سے 4.3 فیصد اور نائیجیریا سے 4 فیصد ہی طلبا تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ جو ہماری تعلیم نظام کے حالات کو واضح کرتے ہیں۔

وزارت فروغ انسانی وسائل نے اعلی تعلیم کو بہتر بنانے کے مقصد سے ایک پانچ سالہ ایجوکیشن کوالیٹی اپ گریڈیشن اینڈ انکلوژن پروگرام کی شروعات کی تھی۔ اس پروگرام کی سربراہی 10 ماہرین گروپ نے کی۔ انہوں نے اس کے پیش نظر متعدد ہدایات مرتب کیں اور اس منصوبے کے لیے پانچ سال کے دوران ڈیڑھ لاکھ روپے کا بجٹ جاری کیا۔

واقعہ یہ بھی ہے کہ چین اپنے تعلیمی بجٹ کے لیے 56 ہزار پانچ سو کروڑ امریکی ڈالر خرچ کرتا ہے جس میں سے صرف اعلی تعلیم کے لیے 14 ہزار پانچ سو امریکی ڈالر آتے ہیں۔ چین کے مقابلے بھارت تعلیمی شعبے میں 1،240 کروڑ امریکی ڈالر خرچ کرتا ہے، جس میں اعلی تعلیم کے لیے صرف 450 کروڑ امریکی ڈالر ہی خرچ کیے جاتے ہیں۔

یو پی اے حکومت کے دوسرے دور اقتدار کے دوران غیر ملکی یونیورسٹیز اور کالجز کے بنیادی ڈھانچے کی طرز پر یہاں کی یونیورسٹیز کی تعمیر کے لیے جو بل پیش کیا گیا تھا اس پر توجہ نہیں دی گئی۔ این ڈی اے حکومت نے نیشنل ایجوکیشن پالیسی کے مسودے میں کہا کہ وہ بھارت میں دنیا کی مشہور یونیورسٹیز کی شاخیں قائم کرنے کی طرف کام کر رہی ہے۔

تعلیم ہی وہ چھڑی ہے جو ہمیں ترقی دلا سکتی ہے۔ بھارت میں تعلیم کی خراب حالت کے پیش نظر ایک مکمل تعلیمی اصلاح اور انقلاب کی ضرورت ہے۔

Intro:Body:Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.