مشہور سماجی کارکن اور ماوا انجینئرنگ ورکس کے سربراہ محمد ولی خاں نے کہاکہ حکومت کی اس حرکت کی وجہ سے پوری دنیا میں غلط پیغام جائے گا۔ان کے خلا ف مقدمہ غلط کیا گیا ہے۔
انہوں نے آج یہاں جاری ایک بیان میں کہا کہ پوری دنیا اس وقت متعدی مرض کورونا وائرس سے جنگ لڑنے میں مصروف ہے اور جسمانی دوری قائم کرنے کے لئے اپنی جیلوں کو خالی کر رہی ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ ملک کی حکومت لاک ڈاؤن کے دوران ہی کم از کم پچاس سے زائد مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرچکی ہے۔
انہوں نے کہاکہ ایسے وقت حکومت کا ایک فرقہ کے خلاف اس طرح کا غیر منصفانہ قدم اٹھانا ان کی منشا کو ظاہر کرتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ124 A(بغاوت) اور 153A (دوفرقوں کے درمیان منافرت پھیلانا)کے تحت دہلی پولیس نے ایف کسی شہری کی شکایت پر آئی آر درج کی ہے۔
انہوں نے کہاکہ ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں کی ٹوئیٹ میں ایسی کوئی قابل اعتراض بات نہیں کی ہے ان کے خلاف ملک سے بغاوت جیسے سنگین دفعات کے مقدمہ درج کیا جائے۔
انہوں نے حکومت پر الزام لگایا کہ تعزیرات ہند کی دفعہ124 A(بغاوت) کا قانون مسلمانوں کے خلاف خوف و دہشت پھیلانے کا ہتھیار بن گیا ہے اور اس کے بے جا استعمال عام بات ہوگئی ہے۔
انہوں نے کہاکہ اس وقت ملک کورونا جیسے متعدی وبا سے گزررہا ہے۔ اس وقت تمام لوگوں کو ساتھ لیکر چلنے کی ضرورت ہے اور حکومت کی ساری توجہ کورونا سے جنگ لڑنے میں مبذول ہونی چاہئے لیکن افسوس کی بات ہے کہ حکومت لاک ڈاؤن اور کورونا کو ایک موقع کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ اس دوران گرفتار ہونے والے مسلم نوجوانوں میں سے بیشتر یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کرایا جارہا ہے جو ٹاڈا کی یاد دلاتا ہے۔
انہوں نے ڈاکٹر ظفر الاسلام کے خلاف درج ایف آئی آر واپس لینے کی حکومت سے درخواست کی اور کہا کہ اس طرح کے اقدام سےگریز کیا جائے کیوں کہ بین الاقوامی سطح پربھارت کی شبیہ خراب ہورہی ہے جو ہمارے ملک عزیز کے لئے بہتر نہیں ہے۔
اسی کے ساتھ انہوں نے تمام لوگوں سے اپیل کی وہ اس طرح کی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھاکر ملک کی جمہوریت اور اظہارخیال کی آزادی کو بچائیں۔