ٹیگور کے سودیشی کے نظریے اور گاندھی جی کے سوراج کے نعرے میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے کیوں کہ دونوں کا فکری ذاویہ اس معاملے پر ایک ہی جیسا نظر آتا ہے حالانکہ ٹیگور گاندھی کی قوم پرستی ، تہذیب و ثقافت کے تبادلے اور شخصی زندگی میں سائنس اور ٹکنالوجی سے متعلق نظریئے سے مختلف سوچ رکھتے تھے۔
ٹیگور قوم پرستی کے بارے میں بنیادی نظریات رکھتے تھے اور سنہ 1917 میں انہوں نے اپنی قوم پرستی سے متعلق خطابات میں مغربی خیالات کی کافی مخالفت کی۔ انہوں نے شعوری طور پر شدت پسندانہ قوم پرستی سے ایک محفوظ فاصلہ برقرار رکھا اور ہمیں حب الوطنی کے پہلو کی طرف راغب کرنے کی راہ دکھائی۔
گاندھی اور ٹیگور دونوں ہی اس بات پر پختہ یقین رکھتے تھے کہ دیہی ترقی ہی بھارتی ثقافت کی بنیاد ہے۔
اگرچہ 'مکتا دھارا' میں ٹیگور نے گاندھیائی عدم تشدد کی تعریف ہے وہیں انہوں نے گاندھی جی کے عدم تعاون تحریک اور چرخے کی حمایت نہیں کی ہے۔
گاندھی جی نے غیر ملکی اشیاء کا مکمل بائیکاٹ کر دیا اور دیسی چیزوں کا استعمال کیا۔ ان کے لیے کھادی محض ایک کپڑا نہیں تھا بلکہ ایک سوچ تھی اور غیر نوآبادیات ان کے لیے سیاسی پیغام تھا۔
ٹیگور یوروپین جدیدیات سے کافی متاثر تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ بھارت کی سائنس اور ٹکنالوجی یوروپین جدیدیات پر مبنی ہو لیکن یہ گاندھیائی خیالات سے باالکل مخالف تھا۔
ہریجن میں گاندھی جی نے واضح کیا تھا کہ اگر دیہات ختم ہوجائینگے تو بھارت بھی ختم ہوجائے گا، یہ بھارت نہیں رہے گا۔ انہوں نے چمپارن (1917)، سیواگرام (1920) اور وردھا (1938) میں دیہی تعمیر نو کا منصوبہ شروع کیا تھا۔
ٹیگور بھی بھارت کے دیہی علاقوں کی تعمیر نو کرنا چاہتے تھے اور اس کے لیے انہوں نے شری نکٹن کے افکار و خیالات کی پیروی کی۔ اور آج ان کی تعلیمات سچ ثابت ہوئیں۔ یہ حرف بہ حرف سچ ہے کہ دیہات سے ہی بھارت ہے اور بھارت دیہات میں ہی بستا ہے۔