ریاست اترپردیش کے شہر رامپور میں پولیس نے سی اے اے اور این آر سی مخالف مظاہرے کے الزام میں مسلم نوجوانوں کو دوبارہ گرفتار کرنا شروع کر دیا ہے۔ گذشتہ روز پولیس نے تین افراد کو گرفتار کیا تھا اور بدھ کو مزید 5 افراد کو گرفتار کرکے ان پر سنگین دفعات لگائے گئے ہیں۔
اس معاملے میں ملی قائدین نے ضلع افسران سے ملکر مزید گرفتاریوں پر روک لگانے کی درخواست کی ہے، لیکن جس طرح گرفتاریوں کا یہ سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے اس پر رامپور کے مفتی شہر مولانا محبوب علی نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔
واضح رہے کہ21 دسبر سنہ 2019 کو رامپور کی عید گاہ میں ملی قیادت کی زیر نگرانی متحدہ طور پر شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف احتجاجی جلسہ منعقد ہونا تھا، لیکن عین وقت پر انتظامیہ نے اس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔
عوام جب شہر کے مختلف علاقوں سے جمع ہوکر جلسہ گاہ کی جانب بڑھی تو پولیس کی ٹیم نے عید گاہ سے آدھا کلو میٹر دور ہاتھی خانہ کے چوراہے پر روک لیا، لیکن جب لوگ عید گاہ کی جانب بڑھنے کے لئے بضد ہوئے تو پولیس نے آنسو گیس کے گولے، جس کے رد عمل میں عوام نے پتھر بازی شروع کر دی۔
اسی دوران مظاہرہ کر رہے فیض نامی ایک نوجوان کی گولی لگنے سے موت اور متعدد افراد زخمی بھی ہو گئے۔ اس کے بعد پولیس نے 116 نامزد جبکہ ہزاروں نامعلوم افراد کے خلاف سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج کرکے کارروائی کی اور 34 افراد کو قصوروار قرار دےکر جیل بھیج دیا۔
طویل جدوجہد کے بعد ضمانت پر 26 افراد کی جیل سے رہائی ہوئی، ساتھ ہی ضلع انتظامیہ اور پولیس کپتان سے اس بات کی یقین دہانی بھی کرائی گئی تھی کہ اس معاملے میں اب مزید گرفتاریاں نہیں ہوں گی، لیکن پولیس کی دوبارہ کارروائی سے رامپور کے سماجی کارکنان اور ملی رہنماء حیران ہیں۔