امیت اگنی ہوتری۔امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دورہ بھارت پر سب خوشی سے جھوم رہے ہیں۔ مودی حکومت اُن کے اِس دورے کو اپنی خارجہ پالیسی کی ایک بڑی کامیابی قرار دے رہی ہے۔ آپ امریکی صدر کے اس دورے کو کس تناظر میں دیکھتے ہیں؟
سلمان خورشید ۔مجھے اس طرح سے تالیاں بجانے میں ایک کھوکھلا پن نظر آتا ہے۔ ہم نے امریکی صدر کی آمد پر بہت پیسہ خرچ کیا ہے۔ یہ درست ہے کہ عالمی لیڈروں کا دورہ کرنا اور دوستی کا اظہار کرنا کسی بھی ملک کی انا کے لئے اچھی بات ہے۔ صدر ٹرمپ نے بھی بھارت کے حوالے سے یہی کچھ کیا۔ لیکن اب جب وہ واپس چلے گئے ہیں ہمیں بیٹھ کر یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اُن کے دورے پر اتنا پیسہ خرچ کرنے کے بعد ہمیں حاصل کیا ہوا ہے۔ ہم کیا حاصل کرنا چاہتے تھے اور ہمیں کیا ملا۔مجھے نہیں لگتا ہے کہ امریکی صدر کے اس دورے کے نتیجے میں ہم نے کچھ زیادہ پایا ہے۔مجھے لگتا ہے کہ یہ حکومت محض کھوکھلے نعرے بازیوں اور بڑھا چڑھا کر بولنے سے ہی مطمئن ہے ۔ میں صدر ٹرمپ کے اس دورے کو اسی تناظر میں دیکھتا ہوں۔ یہ ٹرمپ کے لئے ایک اچھا دورہ تھا۔
امت اگنی ہوتری۔کیا صدر ٹرمپ کے اس دورے کا تعلق آنے والے امریکی صدارتی انتخابات سے تھا؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ زیادہ تر اپنے انتخابات کے حوالے سے فکر مند ہیں۔ اس پر آپ کی کیا رائے ہے؟
سلمان خورشید ۔بالکل ایسا ہی ہے۔ امریکی صدارتی انتخابات میں اب محض چھ ماہ باقی رہ گئے ہیں۔ اور بلا شبہ وہ اس حوالے سے فکر مند ہیں۔ کسی بھی ملک کی قوم کا تعلق دوسرے قوموں سے ہوتا ہے۔ افراد کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ امریکی عوام کے ساتھ ہمارے اچھے مراسم ہیں۔امریکہ کے ساتھ ماضی میں ہمارے اختلافات بھی رہے ہیں۔ دنیا کے بارے میں اس کے خیالات سے ہم نے ہمیشہ اتفاق نہیں کیا ہے۔ہم امریکہ کی بعض پالیسیوں کے ساتھ کھل کر عدم اتفاق کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ اسی وجہ سے دنیا کے ان دو عظیم ممالک ( بھارت اور امریکہ) کے درمیان اجنبیت رہی ہے۔لیکن اگر اب ہمارے امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات ہورہے ہیں تویہ بھی اچھی بات ہے، اس پر کسی کوکوئی اعتراض نہیں ہے۔لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ان قریبی تعلقات کے نتیجے میں ہمیں کیا حاصل ہورہا ہے۔مجھے اس میں کوئی زیادہ فائدہ نظر نہیں آتا ہے۔
امت اگنی ہوتری ۔کیا چین، برطانیہ، آسٹریلیا اور اسرائیل جیسے دوسرے ممالک کے ساتھ بھارت کے تعلقات میں بہتری کے حوالے سے وزیر اعظم مودی کی ایک مضبوط لیڈرکی امیج ہماری مدد کررہی ہے؟
سلمان خورشید ۔کیا واقعی ایسا ہے؟ ہم سے کون بات کررہا ہے؟ کون کہتا ہے کہ یروشلم کے بارے میں کوئی اقدام کرنے سے پہلے ہم بھارت کو اعتماد میں لینا چاہتے ہیں۔کیا یہی صدر ٹرمپ یروشلم کے بارے میں کوئی اقدام کرنے سے پہلے ہم سے مشورہ کرتا ہے۔جب چین سڑک (ون روڈ ون بیلٹ شاہراہ ) بناتا ہے تو کیا صدر ٹرمپ ہم سے اس بارے میں کوئی بات کرتا ہے؟کیا پاکستان کو ایک دوست قرار دینے سے پہلے صدر ٹرمپ نے ہم سے پوچھا تھا؟وہ فوائد اور سرمایہ کاری کہاں ہے، جس کے بارے میں( صدر ٹرمپ کے دورے کے حوالے سے ) ہم سے وعدہ کیا گیا تھا؟ مجھے نہیں لگتا ہے کہ صدر ٹرمپ کے دورے سے ہمیں کچھ زیادہ فائدہ حاصل ہوا ہے۔ ہمارے رویہ سے کیا چین اور جاپان جیسے ممالک ہم سے مطمئن ہیں؟یہ اچھی بات ہے کہ اگر بیرونی ممالک کے لوگ بھارت کو سپورٹ کریں لیکن پچھلے چار پانچ سال کے دوران ایسا کچھ بھی دیکھنے کو نہیں ملا ہے۔جب ہم یہ دعوے کرتے ہیں کہ صدر ٹرمپ اور مودی کے تعلقات بہت اچھے ہیں، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ماضی میں بھی دونوں ممالک کے لیڈروں کے درمیان اچھے تعلقات رہے ہیں۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ امریکی صدر جان کینڈی اور جواہر لعل نہرو کے بھی ایک دوسرے سے اچھے تعلقات تھے۔اس ملک میں پہلے بھی بہت کچھ ہوچکا ہے، جس کے بارے میں لگتا ہے کہ مودی ناواقف ہیں۔
امت اگنی ہوتری ۔کیا عالمی سطح پر بھارت کی شبیہ پچھلے کئی سال کے دوران بڑی تیزی سے تبدیل ہورہی ہے؟
سلمان خورشید۔ دیکھیں، عالمی معاملات میں بھارت کی پوزیشن ہمیشہ مضبوط رہی ہے۔آپ یاد کریں کہ 'ناوابستہ تحریک' میں بھارت سب سے آگے تھا۔ اس ضمن میں صرف یوسلاویا، مصر اور بھارت کا ہی منفرد موقف تھا۔ پانچ ابھرتی ہوئی معیشتوں برازیل ، روس، بھارت ، چین اور جنوبی افریقہ کے اتحاد یعنی برسک میں بھی ہمار موقف اعلی رہا ہے۔ہمیں سارک میں سب سے اہم ملک کی حیثیت حاصل ہے ۔ایشین اور ایشیاء پیسفک میں ہماری شمولیت مودی سے پہلے ہوئی تھی۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جب صدر ٹرمپ یہاں تھے، دہلی میں کیا ہورہا تھا اور دوسری جگہوں پر کیا کچھ ہوا۔
امت اگنی ہوتری۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جب صدر ٹرمپ نے سابرمتی آشرم کا دورہ کیا، اُنہوں نے اس موقع پر وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا ۔ لیکن انہوں نے مہاتما گاندھی کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ آپ اس بات کو کس تناظر میں دیکھتے ہیں؟
سلمان خورشید۔ یہ مایوس کن ہے۔ کسی نے صدر ٹرمپ کو اس بارے میں بریف نہیں کیا تھا اور نہ ہی خود ان کے پاس یہ ویژن ہے کہ وہ خود سمجھ سکتے کہ اس اہم شخصیت ( ماتما گاندھی ) کو پوری دنیا نے سراہا ہے۔ ٹرمپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مہاتما گاندھی کے شیدائی ہیں ۔ لیکن مجھے ان کے رویے سے ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی ۔
امت اگنی ہوتری۔ کیاآپ ہند و پاک تعلقات میں کوئی پیش رفت دیکھتے ہیں، کیونکہ یہ معاملہ مرکز کی خارجہ پالیسی کا اہم حصہ ہے؟
سلمان خورشید۔پہلے تو میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیا ہم پاکستان سے لڑنا چاہتے ہیں، اسے کچلناچاہتے ہیں یا پھر ہم خود کواس سے بچانا چاہتے ہیں۔
امت اگنی ہوتری ۔اکثر یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ جموں کشمیر میں دفعہ 370ہٹائے جانے کے بعد اب پاکستانی مقبوضہ کشمیر کو حاصل کیا جائے گا۔ کیا یہ ممکن ہے؟
سلمان خورشید۔کون کہتا ہے کہ یہ مت کرو۔ آپ ہمیں ڈرا کیوں رہے ہیں ۔ اس معاملے میں ہم نے ہی اتفاق رائے سے پارلیمنٹ میں ایک قرارداد پاس کی ہے۔لیکن ہمیں کچھ بھی کرنے سے پہلے ایک قدم آگے سوچنا ہوگا۔آپ جب پاکستانی قبضے والے کشمیر کو حاصل کریں گے تو پھر وہاں کی آبادی کا آپ کیا کریں گے ۔ کیا وہ لوگ اچھے بھارتی شہری بن کر رہیں گے یا پھر ہمارے لئے پریشانیاں پیدا کریں گے؟
امت اگنی ہوتری۔اب جنوبی ایشیائی خطے کی بات کرتے ہیں۔ کیا اس خطے میں ہم نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے؟
سلمان خورشید۔ دیکھیں، سارک غائب ہوگیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم نے اپنے پڑوسیوں کی مدد، تعاون اور اُن کا اعتماد حاصل کرنے میں بہت کچھ کرسکتے تھے۔لیکن اس حوالے سے کچھ تحفظات ہیں۔اور یہ مایوس کن بات ہے۔لیکن اگر اس خطے میں ہمارے پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رہے تو یہ فائدہ مند بات ہے ۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ اس کا کریڈیٹ کون لے گا۔
امت اگنی ہوتری ۔مودی سرکار کی خارجہ پالیسی کے اہداف کیا ہونے چاہیں؟
سلمان خورشید۔دیکھیں، سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمارے پاس پہلے ایک خارجہ پالیسی ہو۔ایک ایسی خارجہ پالیسی، جس کے نتیجے میں ہمارے مفادات کو تحفظ حاصل ہوگا۔ہماری خارجہ پالیسی کو ہمیشہ دنیا میں سراہا گیا ہے۔ ہم روس، امریکہ اور چین کی طرح بڑی فوجی قوت نہیں بن سکتے ہیں۔ لیکن ہم اپنے تہذیبی اور تمدنی اثر و رسوخ سے ان سے بھی بڑی قوت بند سکتے ہیں۔ ہمیں ایسا ہی کرنا چاہیے۔