ETV Bharat / bharat

'معاشی بحالی کے لئے 'ایف آر بی ایم ایکٹ' پر نظر ثانی کی ضرورت' - وزیر خزانہ نرملا سیتارامن

پروفیسر این آر بھانومورتی نے ایف آر بی ایم ایکٹ19-2018 میں کی گئی تبدیلیوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ 'تبدیلیوں سے کم خرچہ جات کی وجہ سے معیشت میں سست روی کا سامنا کرنا پڑا۔

'معاشی بحالی کے لئے 'ایف آر بی ایم ایکٹ' پر پھر سے نظر ثانی کرنا ہوگا'
'معاشی بحالی کے لئے 'ایف آر بی ایم ایکٹ' پر پھر سے نظر ثانی کرنا ہوگا'
author img

By

Published : Jan 27, 2020, 7:58 AM IST

Updated : Feb 28, 2020, 2:44 AM IST

گذشتہ برس جولائی میں پیش کیے گئے اپنے پہلے بجٹ میں وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے مالی برس 20-2019 کے مالی خسارے کو ملک کی جی ڈی پی کا 3.3 فیصد یا 7 لاکھ کروڑ روپے سے کم رہنے کا تخمینہ لگایا تھا۔

دراصل 2003 میں وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی حکومت نے مرکز اور ریاستوں دونوں میں مالی نظم و ضبط پیدا کرنے کے لئے معاشی ذمہ داری اور بجٹ مینجمنٹ ایکٹ (ایف آر بی ایم ایکٹ) نافذ کیا تھا۔

تاہم ماہرین معاشیات کا خیال ہے کہ ایف آر بی ایم ایکٹ کو گذشتہ برسوں سے کمزور کردیا گیاہے جس سے معیشت میں کمزوری پیدا ہوئی ہے۔ معاشی بحالی کے لئے مودی حکومت کو اصل ایف آر بی ایم ایکٹ نافذ کرنا چاہئے۔

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک فائنانس اینڈ پالیسی (این آئی پی ایف پی) کے پروفیسر این آر بھانومورتی نے کہا کہ 'فلسفے کے مطابق، ایف آر بی ایم ایکٹ اخراجات کو تبدیل کرنے کا طریقہ کار ہے ، جس میں محصولات سے لے کر سرمایہ اخراجات تک کا خرچ آتا ہے اور یہ اخراجات کو دبانے والا میکانزم نہیں ہے۔'

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'اصل ایف آر بی ایم ایکٹ کے تحت مالی خسارہ کو جی ڈی پی کے 3 فیصد اور محصولات کے خسارے کو صفر فیصد تک لایا جانا لازمی ہے۔ اس ایڈجسٹمنٹ میں جو ہوتا ہے وہ یہ کہ سرمایہ اخراجات میں وقتا فوقتا اضافہ ہوتا ہے اور کھپت کے اخراجات میں کمی آتی ہے۔'

محصول کے اخراجات کے برعکس، جس کا اصل مطلب یہ ہے کہ حکومت کے آپریشنل اخراجات جیسے 'ویجیز اور پنشن بل'، سبسڈی اور سود کی ادائیگی اور دیگر 'نان پروڈکٹیو' اخراجات، سرمایہ کے اخراجات سڑکوں، بندرگاہوں، اسکولوں اور اسپتالوں کی تعمیر میں جاتے ہیں۔

زیادہ سرمایہ خرچ کرنے کا مطلب بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں زیادہ پیسہ جاتاہے، جو کسی ملک کی معاشی ترقی پر کثیر اثر ڈالتا ہے۔

پروفیسر بھانومورتی نے مزید بتایا کہ 'لہذا جب آپ کھپت کے اخراجات سے سرمایہ کے اخراجات کی طرف جارہے ہیں تو آپ کی جی ڈی پی میں اضافہ ہونا چاہئے۔'

سنہ 19-2018 میں تبدیلیاں

انہوں نے بتایا کہ 'اصل ایف آر بی ایم ایکٹ کا کمزور پڑنا ملک کی معیشت میں ساختی کمزوری کا سبب بنتا ہے۔

انہوں نے معیشت میں ساختی سست روی کا سبب بننے والے کم سرمایہ اخراجات کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ 'برس 2018 سے جو کچھ ہو رہا ہے وہ اصلی ایف آر بی ایم ایکٹ کے ارادے کے بالکل بر عکس ہے۔ ہمارے محصولاتی اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ سرمایہ کے اخراجات کم ہورہے ہیں۔ 2019 میں سرمایہ کے اخراجات مطلق شرائط میں اور جی ڈی پی کے تناسب میں بھی کمی آئی ہے۔ جی ڈی پی کی شرح نمو جولائی تا ستمبر سہ ماہی میں صرف 4.5 فیصد رہ گئی ہے۔

بیشتر ایجنسیوں، ریزرو بینک آف انڈیا اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) جیسی بین الاقوامی ایجنسیوں نے اس مالی برس میں بھارت کی جی ڈی پی کی شرح نمو 5 فیصد سے کم رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔

(سینئر صحافی کرشنانند ترپاٹھی کا مضمون)

گذشتہ برس جولائی میں پیش کیے گئے اپنے پہلے بجٹ میں وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے مالی برس 20-2019 کے مالی خسارے کو ملک کی جی ڈی پی کا 3.3 فیصد یا 7 لاکھ کروڑ روپے سے کم رہنے کا تخمینہ لگایا تھا۔

دراصل 2003 میں وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی حکومت نے مرکز اور ریاستوں دونوں میں مالی نظم و ضبط پیدا کرنے کے لئے معاشی ذمہ داری اور بجٹ مینجمنٹ ایکٹ (ایف آر بی ایم ایکٹ) نافذ کیا تھا۔

تاہم ماہرین معاشیات کا خیال ہے کہ ایف آر بی ایم ایکٹ کو گذشتہ برسوں سے کمزور کردیا گیاہے جس سے معیشت میں کمزوری پیدا ہوئی ہے۔ معاشی بحالی کے لئے مودی حکومت کو اصل ایف آر بی ایم ایکٹ نافذ کرنا چاہئے۔

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک فائنانس اینڈ پالیسی (این آئی پی ایف پی) کے پروفیسر این آر بھانومورتی نے کہا کہ 'فلسفے کے مطابق، ایف آر بی ایم ایکٹ اخراجات کو تبدیل کرنے کا طریقہ کار ہے ، جس میں محصولات سے لے کر سرمایہ اخراجات تک کا خرچ آتا ہے اور یہ اخراجات کو دبانے والا میکانزم نہیں ہے۔'

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'اصل ایف آر بی ایم ایکٹ کے تحت مالی خسارہ کو جی ڈی پی کے 3 فیصد اور محصولات کے خسارے کو صفر فیصد تک لایا جانا لازمی ہے۔ اس ایڈجسٹمنٹ میں جو ہوتا ہے وہ یہ کہ سرمایہ اخراجات میں وقتا فوقتا اضافہ ہوتا ہے اور کھپت کے اخراجات میں کمی آتی ہے۔'

محصول کے اخراجات کے برعکس، جس کا اصل مطلب یہ ہے کہ حکومت کے آپریشنل اخراجات جیسے 'ویجیز اور پنشن بل'، سبسڈی اور سود کی ادائیگی اور دیگر 'نان پروڈکٹیو' اخراجات، سرمایہ کے اخراجات سڑکوں، بندرگاہوں، اسکولوں اور اسپتالوں کی تعمیر میں جاتے ہیں۔

زیادہ سرمایہ خرچ کرنے کا مطلب بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں زیادہ پیسہ جاتاہے، جو کسی ملک کی معاشی ترقی پر کثیر اثر ڈالتا ہے۔

پروفیسر بھانومورتی نے مزید بتایا کہ 'لہذا جب آپ کھپت کے اخراجات سے سرمایہ کے اخراجات کی طرف جارہے ہیں تو آپ کی جی ڈی پی میں اضافہ ہونا چاہئے۔'

سنہ 19-2018 میں تبدیلیاں

انہوں نے بتایا کہ 'اصل ایف آر بی ایم ایکٹ کا کمزور پڑنا ملک کی معیشت میں ساختی کمزوری کا سبب بنتا ہے۔

انہوں نے معیشت میں ساختی سست روی کا سبب بننے والے کم سرمایہ اخراجات کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ 'برس 2018 سے جو کچھ ہو رہا ہے وہ اصلی ایف آر بی ایم ایکٹ کے ارادے کے بالکل بر عکس ہے۔ ہمارے محصولاتی اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ سرمایہ کے اخراجات کم ہورہے ہیں۔ 2019 میں سرمایہ کے اخراجات مطلق شرائط میں اور جی ڈی پی کے تناسب میں بھی کمی آئی ہے۔ جی ڈی پی کی شرح نمو جولائی تا ستمبر سہ ماہی میں صرف 4.5 فیصد رہ گئی ہے۔

بیشتر ایجنسیوں، ریزرو بینک آف انڈیا اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) جیسی بین الاقوامی ایجنسیوں نے اس مالی برس میں بھارت کی جی ڈی پی کی شرح نمو 5 فیصد سے کم رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔

(سینئر صحافی کرشنانند ترپاٹھی کا مضمون)

Intro:Body:

id1


Conclusion:
Last Updated : Feb 28, 2020, 2:44 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.