بھارت کے طنز و مزاح کے معروف شاعر اور پوسٹ کارڈ بم کے نام سے مشہور علامہ اسرار جامعی کی سرکردہ ادیبوں، شاعروں، صحافیوں اور دیگر شعبہائے حیات وابستہ لوگوں کی موجودگی میں بٹلہ ہاؤس قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔
ان کا آج صبح ساڑھے پانچ بجے انتقال ہوگیا تھا۔ ان کی عمر تقریباً 82 سال تھی۔ وہ طویل عرصے علیل تھے اور ان کا علاج یہاں کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں چل رہا تھا۔ انہوں نے شادی نہیں کی تھی۔
ان کی تدفین میں شامل ہونے والوں میں پروفیسر کوثر مظہری، سپریم کورٹ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ مشتاق احمد، پروفیسر ظہیر احمد، مشرف حسین، حامد علی اختر، خاں رضوان، رشیق احمد خاں،عبدالقٖادر شمس، شاداب عالم وغیرہ ہیں۔
ذرائع کے مطابق ہسپتال سے چھٹی دے دی گئی تھی اور انہوں نے کرائے کے ایک کمرے میں آخری سانس لی۔آج بعد نماز ظہربٹلہ ہاؤس قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔ وہ دہلی میں اکیلے رہتے تھے۔
ان کا تعلق پٹنہ سے تھا۔وہ صاحب ثروت خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ ہمیشہ دہلی میں رہتے تھے۔ انہوں نے پٹنہ سے ’چٹنی‘ نام کا اخبار جاری کیا تھا جو طنز و مزاح پر مشتمل تھا۔ طنزو مزاح ان کے روم روم میں پیوست تھا۔ وہ ہمیشہ اس میں ڈوبے رہتے تھے۔
دہلی میں آنے کے بعد انہوں نے ’پوسٹ مارٹم‘ نامی اخبار جاری کیا تھا۔ جس کے بقول ان کے چیپ ایڈیٹر (چیف ایڈیٹر)وہی تھے۔وہ ادبی حلقوں کے جان تھے۔ ’دہلی نئی پرانی دیکھی، کالی چٹی صورت دیکھی‘ مزاحیہ نظم کے ذریعہ انہوں نے جو دہلی کی منظر کشی کی تھی وہ پڑھنے کے قابل ہے۔ ان کا پوسٹ کارڈ بم بہت مشہور تھا۔ جن سے بھی شکایت ہوتی وہ ان کے نام پوسٹ کارڈ بم سیکڑوں کی تعداد میں روانہ کردیتے تھے۔ ان کا شعری مجموعہ شاعر اعظم کے نام سے کافی مقبول ہوا۔
علامہ اسرار جامعی تنہائی کے شکار تھے، لوگوں نے ملنا جلنا بند کردیا۔ کچھ لوگ تھے جو ان کی دیکھ بھال کرتے تھے اور ان کی خبر خیریت لیتے رہتے تھے۔ سچے اردو کے خادم کی ناقدری کی مثال تھے۔جھوٹی موت کی خبر کی بنیاد پر ان کی پنشن بند کردی گئی تھی جسے دوبارہ جاری کروانے کے لئے ان کو مہینوں دوڑ بھاگ کرنی پڑی تھی۔