پروفیسر شروانی سبکدوش ہونے سے قبل جامعہ عربیہ، اے ایم یو اور بعد میں کشمیر یونیورسٹی میں تدریسی خدمات انجام دے چکے تھے۔
اے ایم یو کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے پروفیسر ریاض الرحمن خان شروانی کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'پروفیسر شروانی نے تقسیم ہند، قدامت پرستی اور فرقہ واریت کی شدید مخالفت کی۔ ان کے عالمی نظریے پر وسیع مطالعے کی ضرورت ہے۔ ان کی گہری بصیرت سے اساتذہ اور طلباء حوصلہ افزائی حاصل کرتے رہیں گے'۔
ویڈیو : پروفیسر ریاض الرحمن خان شروانی شخصیت و خدمات یونیورسٹی کے مختلف شعبوں کے فیکلٹی کے اراکین نے مرحوم پروفیسر شروانی کو ان کی رہائش گاہ پر خراج عقیدت پیش کیا۔
پروفیسر شروانی نے سرسید احمد خان اور مولانا ابوالکلام آزاد پر علمی و تحقیقی انداز میں کئی مضامین لکھے تھے۔
پروفیسر ریاض الرحمن خان شروانی نے اپنی ادھوری آب بیتی 'دھوپ چھاوں' لکھی فرقہ وارانہ منافرت کے خلاف اور بھارت کی سیکولر جمہوریت کے سلسلے میں ان کے تحریری کام نے عام بھارتیوں کے مسائل پر روشنی ڈالی اور امید ظاہر کی کہ بھارت کی سیکولر جمہوریت ہی سے فرقہ واریت کو ختم کیا جا سکتا ہے اور اس سے امن و امان کا قیام بھی ممکن ہے'۔
اے ایم یو میں اپنی طالب علمی کی زندگی کے دوران پروفیسر شروانی نے دو قومی نظریے کی شدید مخالفت کی تھی-
پروفیسر شروانی نے 30 کے قریب کتابیں لکھیں پروفیسر شروانی نے معاشرتی حقائق کے فریم ورک سے قرآن کی عقلی ترجمانی کی حمایت کی۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کےپروفیسر محمد سجاد نے لکھا کہ 'پروفیسر ریاض الرحمن شروانی یوں تو عربی زبان و ادب کے پروفیسر رہے ہیں لیکن انہوں نے اردو نثر میں فصاحت و بلاغت سے کنارہ کشی کرتے ہوئے سادگی اور برجستگی کو اختیار کیا'۔
پروفیسر ریاض الرحمن خان شروانی کی ادارت میں نکلنے والا ماہنامہ فکر و نظر محمد سجاد نے لکھا کہ 'آزادی کے بعد شروع کی دہائیوں میں ان کے بیشتر مضامین، شذرات، خطوط، وغیرہ،مدینہ (بجنور)، دو روزہ جمہور، ہفتہ وار دوست، ہفتہ وارپرچم ہند، روزنامہ قومی آواز،ملک و ملت،جیسے اخباروں میں شائع ہوئے ہیں۔ 1949 اور 1950 کے کچھ مضامین ہفت روزہ نیا ایشیا (علی گڑھ)، اورنیا ہندوستان (علی گڑھ) میں شائع ہوئے ہیں'۔
پروفیسر ریاض الرحمن خان شروانی ، علما و دانشوران کے درمیان انہوں نے دو رسالوں کانفرنس گزٹ اور فکر و نظر کی آخر دم تک ادارت کے فرائض انجام دیتے رہے۔
پروفیسر ریاض الرحمن خان شروانی خاص طور پر دہلی، یوپی اور بہار کے تقریبا تمام اردو اخبارات میں کالم لکھا۔
مزید پڑھیں : اردو زبان و ادب کا بے لوث خادم'آہ ڈاکٹر سلمان راغب'
پروفیسر شروانی نے 30 کے قریب کتابیں لکھیں۔ جن میں آب بیتی 'دھوپ چھاوں' ادارتی مضامین کا مجموعہ 'مسائل و مباحث' اور مولانا آزاد کی سوانح 'میر کارواں' وغیرہ شامل ہیں۔
معروف محقق و صحافی پروفیسر ریاض الرحمن شروانی کا انتقال واضح رہے کہ پروفیسر ریاض الرحمن خان شروانی بھارتی مسلمانوں کا مشہور و معروف علمی، تحقیقی، فکری اور تھینک ٹینک سمجھے جانے والا ادارہ دارالمصنفین، شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ کی مجلس ادارت کے آخر تک رکن بھی تھے۔
مرحوم کے بیٹے ڈاکٹر مدیح الرحمن شیروانی اور دو بیٹیاں ہیں۔