ETV Bharat / bharat

'بابائے قوم' انسانیت و فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی علامت - بابائے قوم مہاتما گاندھی

بابائے قوم مہاتما گاندھی 18 جنوری 1948 کو اپنا آخری روزہ ختم کرنے کے نو دنوں بعد اور 30 جنوری 1948 کو اپنے قتل سے تین روز قبل امن کی بحالی کے مقصد سے دہلی کے مہرولی میں واقع قطب الدین بختیار کی درگاہ گئے تھے۔ اس وقت دہلی فرقہ وارانہ تشدد میں جل رہا تھا۔

بابائے قوم انسانیت، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے پیامبر
بابائے قوم انسانیت، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے پیامبر
author img

By

Published : Jan 30, 2020, 11:25 AM IST

Updated : Feb 28, 2020, 12:20 PM IST

سنہ 1948 کی جنوری میں دہلی کڑاکے کی سردی کی زد میں تھا، بابائے قوم مہاتما گاندھی یہاں فرقہ وارانہ کشیدگی سے ہوئے نقصانات کا جائزہ لینے پہنچے تھے، اس وقت ان کی عمر 79 برس تھی، وہ صبح آٹھ بجے بختیار کاکی کی درگاہ حاضر ہوتے ہیں، ان کے چہرے کی رمق ماند پڑ چکی تھی، بقول گاندھی جی 'جس طرح سے مسلمانوں کو ان کی ہی زمین پر مذہبی منافرت کا شکار ہونا پڑا، ان کا دل افسردہ ہو گیا اور پریشانی ان کے چہرے پر عیاں تھی اور وہ اس واقعہ سے کرب و اضطراب میں مبتلا ہو گئے، اس وقت ان کے ساتھ مولانا آزاد اور راج کماری امرت کور بھی تھیں۔

چونکہ باپو کچھ وقت پہلے ہی روزے پر تھے، لہذا وہ کافی کمزور بھی ہوگئے تھے۔ عالم یہ تھا کہ مرض میں مبتلا ہو چکے تھے۔ فسادات کے دوران اس مقدس مقام پر حملہ کیا گیا بلکہ بربریت بھی کی گئی، جس کی وجہ سے بہت سارے مقامی مسلمانوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا اور محفوظ مقامات پر پناہ لینی پڑی یہاں تک کہ درگاہ کے ملازمین نے بھی جان جانے کے خوف سے اس جگہ کو چھوڑ دیا اور وہ بھی محفوظ مقامات پر چلے گئے۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب پورا مہرولی علاقہ دیہاتوں سے گھرا ہوا تھا، گرین پارک، حوض خاص، صفدر جنگ ڈیولپمنٹ ایریا، آئی آئی ٹی اور جنوبی دہلی کی مختلف کالونیاں 50 کی دہائی کے وسط میں ہی وجود میں آئی تھیں۔

باپو کے ذاتی معاون رہے پیارے لال نائر اپنی کتاب 'مہاتما گاندھی پورن ہوتی' میں لکھتے ہیں 'درگاہ کے کچھ حصے کو نقصان پہنچا دیکھ باپو پوری طرح ٹوٹ گئے تھے، انہیں حکومت کی طرف سے قطب الدین بختیار کاکی درگاہ کے قریب بسایا گیا تھا'۔

اس دوران باپو نے درگاہ میں موجود سبھی افراد سے پر امن طریقے سے رہنے کی اپیل کی، انہوں نے مہاجرین سے تباہ شدہ جگہ کو دوبارہ تعمیر کرنے کو کہا، اور پھر باپو نے اس وقت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو سے درگاہ کی مرمت کروانے کو کہا، کیونکہ فسادات کے دوران یہاں بڑے پیمانے پر نقصان ہوا تھا۔

اس کے لئے گاندھی جی نے نہرو سے 50 ہزار روپے مختص کرنے کو بھی کہا، ان دنوں یہ ایک بہت بڑی رقم تھی، گاندھی نے اپنے دورے کے بعد لکھا تھا کہ 'اجمیر درگاہ کے علاوہ، یہ (قطب الدین بختیار کاکی درگاہ) دوسرا مقام ہے جہاں ہر برس صرف مسلمان ہی نہیں، بلکہ کثیر تعداد میں غیر مسلم بھی آتے ہیں'۔

درگاہ سے روانگی سے قبل گاندھی جی نے لوگوں کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور اتحاد کا پیغام دیا، دہلی میں 12 اپریل 1915 سے لے کر 30 جنوری 1948 تک اپنے کل 744 دنوں کے قیام میں انہوں نے دہلی میں صرف دو مرتبہ مذہبی مقامات کا دورہ کیا، اگرچہ وہ ایک پرہیزگار ہندو تھے۔

انہوں نے 22 ستمبر 1939 کو اس شرط پر بڑلا مندر کا افتتاح کیا کہ وہاں دلتوں کے داخلے پر پابندی نہیں ہوگی، انہوں نے دوسری بار جس مزار کا دورہ کیا وہ یہی یعنی قطب الدین بختیار کاکی کی ہی درگاہ تھی۔

ہاں وہ دہلی میں والمیکی مندر (اس وقت کا ریڈنگ روڈ، آج کے مندر مارگ پر واقع) کے ایک چھوٹے سے کمرے میں ضرور رہے تھے، لیکن وہ یہاں والمیکی سماج کے بچوں کو تعلیم وترویج سے آراستہ وپیراستہ کرتے تھے۔

موسم بہار میں بختیار کاکی درگاہ میلے کا انعقاد کیا جاتا ہے، جب دہلی میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا جشن منانے کے لئے سالانہ 'پھول والوں کی سیر' یہاں منعقد ہوتی ہے۔

یہ واقعی میں گاندھی جی کے لئے ایک خراج تحسین ہے جو اس بات کے لئے مطمئن تھے کہ بھارت کا سیکولرازم زندہ رہے، 1961 میں اس وقت کے وزیر اعظم نہرو کی جانب سے اس سات روزہ تہوار کو بحال کیا گیا تھا، تہوار کے دوران ہندو اور مسلم دونوں درگاہ پر چادر چڑھاتے ہیں۔

سنہ 1948 کی جنوری میں دہلی کڑاکے کی سردی کی زد میں تھا، بابائے قوم مہاتما گاندھی یہاں فرقہ وارانہ کشیدگی سے ہوئے نقصانات کا جائزہ لینے پہنچے تھے، اس وقت ان کی عمر 79 برس تھی، وہ صبح آٹھ بجے بختیار کاکی کی درگاہ حاضر ہوتے ہیں، ان کے چہرے کی رمق ماند پڑ چکی تھی، بقول گاندھی جی 'جس طرح سے مسلمانوں کو ان کی ہی زمین پر مذہبی منافرت کا شکار ہونا پڑا، ان کا دل افسردہ ہو گیا اور پریشانی ان کے چہرے پر عیاں تھی اور وہ اس واقعہ سے کرب و اضطراب میں مبتلا ہو گئے، اس وقت ان کے ساتھ مولانا آزاد اور راج کماری امرت کور بھی تھیں۔

چونکہ باپو کچھ وقت پہلے ہی روزے پر تھے، لہذا وہ کافی کمزور بھی ہوگئے تھے۔ عالم یہ تھا کہ مرض میں مبتلا ہو چکے تھے۔ فسادات کے دوران اس مقدس مقام پر حملہ کیا گیا بلکہ بربریت بھی کی گئی، جس کی وجہ سے بہت سارے مقامی مسلمانوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا اور محفوظ مقامات پر پناہ لینی پڑی یہاں تک کہ درگاہ کے ملازمین نے بھی جان جانے کے خوف سے اس جگہ کو چھوڑ دیا اور وہ بھی محفوظ مقامات پر چلے گئے۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب پورا مہرولی علاقہ دیہاتوں سے گھرا ہوا تھا، گرین پارک، حوض خاص، صفدر جنگ ڈیولپمنٹ ایریا، آئی آئی ٹی اور جنوبی دہلی کی مختلف کالونیاں 50 کی دہائی کے وسط میں ہی وجود میں آئی تھیں۔

باپو کے ذاتی معاون رہے پیارے لال نائر اپنی کتاب 'مہاتما گاندھی پورن ہوتی' میں لکھتے ہیں 'درگاہ کے کچھ حصے کو نقصان پہنچا دیکھ باپو پوری طرح ٹوٹ گئے تھے، انہیں حکومت کی طرف سے قطب الدین بختیار کاکی درگاہ کے قریب بسایا گیا تھا'۔

اس دوران باپو نے درگاہ میں موجود سبھی افراد سے پر امن طریقے سے رہنے کی اپیل کی، انہوں نے مہاجرین سے تباہ شدہ جگہ کو دوبارہ تعمیر کرنے کو کہا، اور پھر باپو نے اس وقت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو سے درگاہ کی مرمت کروانے کو کہا، کیونکہ فسادات کے دوران یہاں بڑے پیمانے پر نقصان ہوا تھا۔

اس کے لئے گاندھی جی نے نہرو سے 50 ہزار روپے مختص کرنے کو بھی کہا، ان دنوں یہ ایک بہت بڑی رقم تھی، گاندھی نے اپنے دورے کے بعد لکھا تھا کہ 'اجمیر درگاہ کے علاوہ، یہ (قطب الدین بختیار کاکی درگاہ) دوسرا مقام ہے جہاں ہر برس صرف مسلمان ہی نہیں، بلکہ کثیر تعداد میں غیر مسلم بھی آتے ہیں'۔

درگاہ سے روانگی سے قبل گاندھی جی نے لوگوں کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور اتحاد کا پیغام دیا، دہلی میں 12 اپریل 1915 سے لے کر 30 جنوری 1948 تک اپنے کل 744 دنوں کے قیام میں انہوں نے دہلی میں صرف دو مرتبہ مذہبی مقامات کا دورہ کیا، اگرچہ وہ ایک پرہیزگار ہندو تھے۔

انہوں نے 22 ستمبر 1939 کو اس شرط پر بڑلا مندر کا افتتاح کیا کہ وہاں دلتوں کے داخلے پر پابندی نہیں ہوگی، انہوں نے دوسری بار جس مزار کا دورہ کیا وہ یہی یعنی قطب الدین بختیار کاکی کی ہی درگاہ تھی۔

ہاں وہ دہلی میں والمیکی مندر (اس وقت کا ریڈنگ روڈ، آج کے مندر مارگ پر واقع) کے ایک چھوٹے سے کمرے میں ضرور رہے تھے، لیکن وہ یہاں والمیکی سماج کے بچوں کو تعلیم وترویج سے آراستہ وپیراستہ کرتے تھے۔

موسم بہار میں بختیار کاکی درگاہ میلے کا انعقاد کیا جاتا ہے، جب دہلی میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا جشن منانے کے لئے سالانہ 'پھول والوں کی سیر' یہاں منعقد ہوتی ہے۔

یہ واقعی میں گاندھی جی کے لئے ایک خراج تحسین ہے جو اس بات کے لئے مطمئن تھے کہ بھارت کا سیکولرازم زندہ رہے، 1961 میں اس وقت کے وزیر اعظم نہرو کی جانب سے اس سات روزہ تہوار کو بحال کیا گیا تھا، تہوار کے دوران ہندو اور مسلم دونوں درگاہ پر چادر چڑھاتے ہیں۔

Intro:Body:Conclusion:
Last Updated : Feb 28, 2020, 12:20 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.