علی گڑھ مسلم یونیورسٹی شعبہ رابطہ عامہ کے اسسٹنٹ ممبر انچارج ڈاکٹر راحت ابرار نے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ ڈاکٹر ذاکر حسین اے ایم یو کے مایہ ناز فرزند رہے ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر حسین کی بہت سی یادیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بھی وابستہ ہیں، انھیں 1918 میں طلبا یونین کا نائب صدر منتخب کیا گیا اور شعبہ معاشیات میں لیکچرر کی حیثیت سے خدمات بھی انجام دیں، اور نومبر 1948 سے ستمبر 1956 تک اے ایم یو کے وائس چانسلر بھی رہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر ذاکر حسین نے آزادی کے بعد اے ایم یو کو ایک نئی فضا دی اور ان کے انتقال کے بعد انجینئرنگ کالج کا قیام بھی عمل میں آیا جس کا نام ڈاکٹر ذاکر حسین انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی رکھا گیا، اور آج اس کے طلبا پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں جنہوں نے انجینئرنگ کے میدان میں بڑا نام پیدا کیا ہے۔
راحت ابرار نے مزید بتایا کہ ڈاکٹر ذاکر حسین سے متعلق بہت سی یادیں اس ادارے سے وابستہ ہیں اور خاص طور سے 1947 کے بعد اس یونیورسٹی کو ترقی دینے اور اس کی جو روح ہے اس کو قائم کرنے میں ذاکر حسین کا بڑا اہم کردار رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اے ایم یو کے جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج کے قیام کے لیے بھی ڈاکٹر ذاکر حسین بحیثیت وائس چانسلر سعودی عرب کا دورہ بھی کیا، چاہے وہ گورنر رہے ہوں یا نائب صدر رہے ہوں، ان کا علی گڑھ سے تعلق ہمیشہ قائم رہا، وہ علی گڑھ کی ترقی اور فلاح کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے، وہ یہاں کے ممتاز طالب علم تھے۔
واضح رہے کہ ملک کے تیسرے اور پہلے مسلم صدر جمہوریہ اور بھارت رتن ڈاکٹر ذاکر حسین کی پیدائش حیدر آباد میں 8 فروری 1897 کو ہوئی، ابتدائی تعلیم انھوں نے حیدر آباد میں حاصل کی اور ہائی اسکول کی تعلیم انھوں نے اٹاوہ سے مکمل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے لکھنؤ یونیورسٹی، محمڈن اینگلو اورینٹل کالج اور برلن یونیورسٹی کا رخ کیا۔ ڈاکٹر ذاکر حسین نے 1962 میں یونیورسٹی آف برلن سے معاشیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی وہ ایک اعلی اور عظیم ماہر معاشیات بھی تھے۔
بھارت رتن ڈاکٹر ذاکر حسین نہ صرف ہندوستان کے تیسرے صدر جمہوریہ تھے بلکہ وہ ایک عظیم مجاہد آزادی تھے جنہوں نے دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسا محب وطن ادارے کی بنیاد ڈالی اور اس کے وی سی بھی رہے۔
ڈاکٹر ذاکر حسین کو ان کی خدمات کے اعتراف میں 1963میں بھارت رتن سے نوازا گیا تھا۔ انہوں نے 1957 سے 1962کے درمیان بہار کے گورنر کے طور پر انتظامی امور میں انقلابی تبدیلی لا کر اپنی اہلیت کو مزید ثابت کیا، جس کے نتیجہ میں وہاں بڑی اصلاحات ہوئیں۔ ان کا انتقال 3 مئی 1969 کو دہلی میں ہوا۔