وزارت داخلہ نے انفرادی ریاستوں کی طرف سے تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی مکمل اصلاح کرنے کے مشوروں کا خیرمقدم کیا ہے۔ واضح رہے کہ ان قوانین کو سنہ 1860 میں تشکیل دیا گیا تھا۔ مرکزی حکومت نے سی آر پی سی کی اصلاح کے لیے قانونی ماہرین کے ساتھ دو کمیٹیز تشکیل کی ہیں۔
تعزیرات ہند اور پولیس فورسز کی تشکیل غیر ملکی قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا تھا تا ہم اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بھارتی شہریوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے موجودہ قوانین میں ترمیم کرنا بے حد ضروری ہے۔
وزیر داخلہ امت شاہ نے فوجداری مقدمات میں سزا کی سختی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 'حکومت سات برس سے زائد قید کی سزا کے قوانین میں فارینسک شواہد کو لازمی قرار دینے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔' انہوں نے مزید کہا کہ 'عدلیہ کو فون ٹیپنگ جیسے پرانے اور روایتی طریقوں سے آگے بڑھ کر جدید تکنیک سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
سنہ 1860 میں بنائے گئے آئی پی سی اور 'بھارتی شواہد قانون' (دی انڈین ایویڈنس ایکٹ 1872) 1872 پر کئی ماہرین افسوس کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔' ساتھ ہی یہ ماہرین، حکومت سے ان قوانین اور کارروائیوں میں مکمل طور پر اصلاح کرنے پر بھی زور دے رہے ہیں۔
سنہ 1973 میں قید کی سزا کو کم کیا گیا تھا تاہم آج بھی ان میں سے بہت سے قوانین میں کئی خامیاں موجود ہیں۔ شہریوں کے انسانی اور آئینی حقوق پر زور دینے والی اصلاحات وقت کی ضرورت ہے۔
جسٹس تھامس نے کہا تھا کہ 'جب عدلیہ تین دہائیوں میں کسی معاملے کو قانونی طور پر حل کرنے کا صرف اشارہ دیتے ہیں تو ایسی صورت میں وہ شہریوں سے بالواسطہ طور پر انصاف کے لیے پچھلے دروازے سے رجوع کرنے کو کہہ رہے ہوتے ہیں۔'
سابق وزیراعظم واجپئی نے آئی پی سی اور سی آر پی سی پر ازسر نو غور کرنے کی تجویز پیش کی تھی جو بھارتی عدلیہ کی تنزلی کے لیے کہیں نہ کہیں ذمہ دار بھی ہے۔ دوسری جانب مجرم، شرمناک جرائم انجام دینے کے بعد بھی سزا سے بچ جاتے ہیں اور باہر گھومتے رہتے ہیں جبکہ چھوٹے چوروں اور جرائم کو انجام دینے والے مجرموں کو سخت سزا دی جارہی ہے۔
شانتانم کمیٹی نے کھانے کی ملاوٹ، بلیک مارکیٹنگ اور بدعنوانی جیسے سفید پوش جرائم کے لیے صحیح سزا کی عدم موجودگی پر باضابطہ طور اپنی رپورٹ میں اس پر تنقید بھی کی ہے۔
ایک جانب جہاں انصاف عام آدمی کے لیے ایک سراب بن گیا ہے۔ وہیں دوسری جانب وی آئی پیز کو عدالتیں چھٹیوں پر بھی ضمانت دینے کے لیے خصوصی سماعت فراہم کر رہی ہیں۔
مودی حکومت نے ایک ہزار 458 قوانین کو جہاں ختم کیا۔ وہیں حال ہی میں 58 پرانے قوانین کو بھی منسوخ کرنے کا کام بھی کیا ہے۔ برطانوی دور حکومت نے مظاہروں کو دبانے کے لیے ملک بدر اور ہتک عزت کے قوانین متعارف کروائے تھے جو موجودہ وقت میں بھی آئی پی سی میں برقرار ہے۔
اگرچہ برطانیہ کی حکومت نے بہت پہلے ہی ان قوانین کو منسوخ کردیا تھا۔ تاہم بھارت میں سیاستداں، جمہوریت کی آواز کا قتل اور عوام کو خاموش کرنے کے لیے اس کا غلط استعمال ہنوز کر رہے ہیں۔
شہریوں کے حقوق میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے پینل کوڈ میں اصلاح کے عمل کو جمہوریت کی تضحیک سے دور ہونا چاہیے۔
تعزیرات ہند اپنے شہریوں کے لیے کس طرح مہلک ثابت ہو رہی ہے، اس کے بہت سے شواہد اور مثالیں موجود ہیں۔ سرکاری مردم شماری کے مطابق اپریل 2017 سے فروری 2018 کے درمیان ایک ہزار 674 بےگناہوں کی ہلاکت حراست کے دوران ہوئی ہے۔
وہیں گزشتہ برس یہ تعداد مزید اضافے کے بعد ایک ہزار 966 ہوگئی ہے۔
جہاں ہماری پولیس فورسز چھوٹے چوروں سے نمٹنے میں ظلم و بربریت کا رویہ اختیار کرنے پر قائم ہے۔ وہیں فوجداری مقدمات میں سزا سنانے کی شرح محض 40 فیصد ہے۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) نے انکشاف کیا ہے کہ 90 فیصد ایسے ملزمین کو آسام، بہار اور اڑیسہ جیسی ریاستوں میں باعزت بری بھی کیا گیا ہے۔
وہیں آندھرا پردیش میں صرف 38 فیصد جبکہ تلنگانہ میں صرف 32 فیصد ملزمین پر الزام عائد ہوئے اور انہیں سزا سنائی گئی۔
سنہ 2003 میں جسٹس مالیمتھ کمیٹی کا قیام کیا گیا تھا جس نے عدلیہ، پولیس فورسز اور استغاثہ کے مابین ہم آہنگی کے حصول کے لیے رہنما اصول مرتب کیے تھے۔
کمیٹی نے بھارتی عدلیہ میں عام آدمی کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے آئی پی سی اور سی آر پی سی دونوں کو آسان بنانے کے بارے میں متعدد ہدایات دی تھیں لیکن ہدایات کو نظرانداز کردیا گیا۔
موجودہ نظام انصاف ملزمین کے حق میں جبکہ متاثرین کو ہراساں کر رہا ہے۔
مالیمتھ کمیٹی نے جو ہدایات دی ہیں، حالیہ طور پر مقرر کردہ افراد کے لیے مجرمانہ انصاف میں اصلاحات لانے کے لیے وہ مشعل راہ بننا چاہیے۔
بھارتی قانونی نظام کو ہموار کرنے کا مقصد متاثر افراد کو فوری طور پر انصاف کی فراہمی ہے کیونکہ 'انصاف میں تاخیر انصاف نہیں دینے' کے مترادف ہے۔