اختصار کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ 1991ء میں سویت یونین روس (یو ایس ایس آر) کے بکھر جانے کے نتیجے میں سرد جنگ کا اختتام ہوگیا اور اس کے ساتھ ہی امریکا کی قیادت میں یک قطبیہ (یونی پولر) دُنیا وجود میں آگئی، جسے یورپ اور دیگر اتحادیوں کی حمایت حاصل ہوگئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب چین، جو آج ایک مضبوط معاشی اور عسکری قوت کے طور پر ابھر چکا ہے، ابھی بچپنے میں ہی تھا۔ جبکہ بھارت جدید دُنیا میں اپنے ابتدائی قدم جما رہا تھا اور گلوبلائزیشن کے ذریعے باقی دُنیا کے ساتھ اپنے تعلقات اُستوار کررہا تھا اور معاشی طور پر دُنیا سے جڑ رہا تھا۔
سویت روس کے بکھرنے کے بعد کا دور
سویت روس کے بکھرنے کے بعد دنیا میں بہت کچھ بدل گیا۔ اس کے نتیچے میں ایک ایسی کثیر قطبی (ملٹی پولر) دُنیا کے اُبھرنے کے امکانات روشن ہونے لگے، جس میں چین روس، بھارت، برازیل اور جنوبی افریقہ کی جانب سے عالمی معاملات میں اہم رول نبھانے کا امکان پیدا ہوگیا۔ ان ترقی پذیر ممالک پر مشتمل اُبھرتی ہوئی معاشی قوتوں کا عالمی حکمرانی میں ایک کردار نبھانے کی گنجائش پیدا ہوگئی۔ تاہم کئی وجوہات کی بنا پر دُنیا ایک مختلف سمت میں چلنے لگی۔ ان وجوہات کا تذکرہ ذیل میں ہے۔
امریکا ۔ یورپ اور روس کے درمیان خلیج بڑھ گئی:
روس کی چین کے ساتھ قربت بڑھنے لگی۔ یو ایس ایس آر کے بکھرنے کے ساتھ ہی امریکا اور یورپی یونین نے طاقت کے توازن کی خلیج پاٹنے کےلئے اپنے سیاسی نظریاتی، اقتصادی اور اسٹریٹجیک اہداف طے کئے اور ان کے حصول میں جُٹ گئے۔ انہوں نے یورپ میں کمونزم کے تنزل کو ناقابل واپسی بنانے اور نئی بننے والی خود مختار مملکتوں کو یورو اٹلانٹک سے ہم آہنگ کرنا شروع کردیا۔ دُنیا خاص طور سے یورپ نے روسی اتحاد پر اپنا انحصار کم کرنے کے لئے کیسپیان اور وسط ایشیاء میں توانائی کے قدرتی وسائل کی فراوانی سے فائدہ اٹھانے کی طرف توجہ دینا شروع کردیا۔ یورپی یونین اور مغربی دفاعی اتحاد (نیٹو) کی مشرق یعنی روس کے عقب میں موجودگی کو روسی وفاق کے صدر بورس یلسن نے برداشت بھی کیا اور نظر انداز بھی کیا۔ لیکن سال 2000ء کے بعد صدر پوٹن نے اس کی یہ کہہ کر شدید مزاحمت شروع کردی، کہ مشرق میں یورپی یونین اور مغربی دفاعی اتحاد کی موجودگی سیکورٹی کے لحاظ سے روس کے لئے ایک خطرہ ہے۔
امریکا اور بعض یورپی ممالک کی جانب سے کوسوو کو خود مختار مملک کی حیثیت سے تسلیم کرنے اور اپریل 2008ء کے اعلامیہ، جس میں کہا گیا کہ جارجیا اور یوکرین کو مغربی دفاعی اتحاد (نیٹو) میں (غیر متعینہ وقت پر) شامل کیا جائے گا، سے روس مشتعل ہوگیا۔ اسکے علاوہ جارجیا سے الگ ہوئے ابخازیہ اور جنوبی اوسیٹیا کو اگست 2008ء میں خودمختار مملکتوں کے بطور تسلیم کئے جانے پر بھی روس نالاں ہوگیا۔ ان اور کئی دیگر وجوہات، بالخصوص امریکا کی جانب سے پابندیوں کی وجہ سے روسی معیشت کو نقصان پہنچنے کے سبب، روس اور مغرب کے درمیان تلخیاں بڑھ گئیں۔ اس کے ساتھ ہی روس بڑی تیزی سے چین کے قریب ہوگیا اور اسے اپنا ناگزیر پارٹنر بنایا۔
چین اور روس کے درمیان تعلقات میں کئی گنا اضافہ:
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ روس اور چین کے درمیان تعلقات گہرے ہوئے اور بالآخر سال 2019ء میں دونوں ممالک کے درمیان ’’وسیع سٹریٹجک پارٹنرشپ آف کارڈی نیشن فار نیو ایرا‘‘ معاہدہ ہوا۔ اس کے نتیجے میں علاقائی اور عالمی معاملات کے حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان ہم آہنگی اور کارڈی نیشن پیدا ہوگئی۔ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا حجم سو بلین ڈالر سے بھی زیادہ بڑھ گیا۔ سال 2018ء میں یہ دوطرفہ تجارت 108بلین ڈالر سے تجاوز کرگیا۔ توانائی جیسے اہم شعبے میں دونوں ممالک کے آپسی تعاون کے نتیجے میں دونوں کا بے پناہ فائدہ ہوا۔ دفاعی شعبے میں دونوں ملکوں کا باہمی تعاون بھی عروج پر ہے۔ دونوں ممالک نے کم بیش اپنے تمام سرحدی تنازعات حل کردیئے ہیں۔ دونوں ممالک کے بہتر رشتے دونوں کےلئے انتہائی سود مند ثابت ہوگئے۔
چین اور ایران کی قربت
امریکا کی جانب سے (مئی 2018ء میں) ایران نیوکلیر ڈیل کو یکطرفہ طور ختم کرنے اور ایران پر دوبارہ سخت پابندیاں لگانے کے نتیجے میں ایران کی معیشت کو زبردست چوٹ لگی۔ اس سے قبل (اگست 2017ء میں) امریکا نے اپنے دشمنوں سے نمٹنے سے متعلق قانون (سی اے اے ٹی ایس اے) ایکٹ کو نافذ کرتے ہوئے اس قانون کے تحت ایران، روس اور شمالی کوریا اور دیگر کئی دُشمن ممالک پر پابندیاں عائد کردیں۔
اب جبکہ ایران اور امریکا کے تعلقات خراب ہیں، اطلاعات آئی ہیں کہ ایران چین کے ساتھ چار سو بلین ڈالر کی ایک معاشی اور سیکورٹی ڈیل کررہا ہے۔ چین اس ڈیل کے تحت ایران کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرے گا اور اس کے بدلے میں ایران سے کم قیمتوں پر تیل اور گیس حاصل کرے گا۔ اس ڈیل کے نتیجے میں امریکا کا ایران کو الگ تھلگ کرنے اور اسکے جوہری عزائم پر اسے سزا دینے کا منصوبہ دھرا کا دھرا رہ گیا۔
سہولت کاری کی آڑ میں چین کی توسیع پسندی
اب عالمی منظر نامہ کچھ اس طرح سے معرض وجود آرہا ہے ، جس میں چین، روس اور ایران تینوں کو ایک دوسرے کی بدولت سہولت میسر آرہی ہے۔ پاکستان اور شمالی کوریا پہلے ہی چین کی کفالت میں ہیں۔ حال ہی میں نیپال اور سری لنکا بھی چین کے خیمے میں شامل ہوگئے ہیں۔ نیپال کی جانب سے بھارتی حدود میں تجاوزات اور سری لنکا کی جانب سے کولمبو بندرگار پر مشرقی کنٹینر ٹرمنل کی ڈیولپمنٹ کے پروجیکٹ سے متعلق سری لنکا، بھارت اور جاپان کے درمیان ہوئے معاہدے پر از سر نوغور کرنے کے فیصلے جیسے تازہ واقعات در اصل چین کی ایما پر رونما ہورہے ہیں۔
چین کے خلاف عالمی قوتوں کا اتحاد
رائیٹرس خبر رساں ایجنسی کے مطابق چینا انسٹی چیوٹ آف کنٹمپرری انٹرنیشنل ریلیشنز ( ایک تھنک ٹینک جو چین کی اعلیٰ انٹیلی جنس ایجنسی سے منسلک ہے) نے اپریل 2020ء میں ایک داخلی رپورٹ جاری کردی ہے، جس میں کہا گیا کہ 1989ء میں ہانگ کانگ کے تیاننمن سکوائر کریک ڈاون کے واقعہ کے بعد آج پہلی بار عالمی سطح پر چین مخالف جذبات عروج پر ہیں۔ یہ صورتحال کا ایک کھلا اور صاف گوئی سے کیا گیا تجزیہ ہے۔ رائیٹرز نے اس ضمن میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کی ہیں۔ اس صورتحال کی مختلف وجوہات سب کو پتہ ہیں، ان میں چند ایک ذیل میں درج ہیں۔
کچھ عرصہ سے چین اور باقی دُنیا کے درمیان عدم اعتماد کی ایک بہت بڑی خلیج پیدا ہوگئی ہے۔ اسکی خاص وجہ چین کی بڑھتی ہوئی قوت، اور مختلف براعظموں میں اس کا بڑھتا ہوا اثر و نفوذ ہے۔ اس کے علاوہ اپنی معاشی قوت اور بعض غیر اصولی طریقوں سے پوری دُنیا کو فتح کرنے کی چین کی خواہش، سے بھی باقی دُنیا مضطرب ہے۔ چین کی جانب سے عالمی سطح پر مدد اور تعاون کی پالیسی، مختلف پروجیکٹوں بالخصوس بیلٹ اور روڈ اقدام کے ذریعے دوسرے ممالک کو قرض کے جال میں پھنسانے کا طریقہ کار کے دور رس جیو پولٹیکل، سٹریٹجک اور سیکورٹی نتائج ہونگے۔ امریکا اور بھارت سمیت زیادہ تر بڑے ممالک کو چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے اور چینی کمپنیوں کے بڑھتے ہوا غلبے پر پریشانی لاحق ہوگئی ہے۔
چین کی جانب سے غیر ملکی کمپنیوں کو اپنے بازاروں تک رسائی نہ دینے اور اپنی حکومت کے ذریعے چلائی جانے والی کمپنیوں کو ترجیح دینے کا معاملہ بھی باعث تشویش ہے۔ چین پر سائبر جاسوسی کا الزام بھی ہے۔ اس کے علاوہ ساوتھ اور ایسٹ چینا کے سمندری حدود میں چین کی جارحیت کی وجہ سے خطے کے ممالک بحری اور فضائی خطرہ محسوس کررہے ہیں۔ کیونکہ ان سمندری حدود کے راستوں سے ان ممالک کے کروڑوں ڈالر مالیت کی اشیاء ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچائی جارہی ہیں۔
کووِڈ19 کی وبا کے حوالے سے بھی چین کا ایک مشتبہ کردار رہا ہے۔ چین نے اپنے اقتصادی مقاصد کےلئے اس بحران کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ناقص طبی آلات فروخت کرنے کی بھی کوشش کی۔ اس کی وجہ سے بھی چین کی شناخت اور عالمی سطح پر اس کی اعتباریت کو ایک دھچکہ پہنچا ہے۔ بلکہ اس کے نتیجے میں دُنیا بھر میں ایک چین مخالف مہم بھی شروع ہوگئی ہے۔ اب اس مہم کا ہدف چین کے معاشی مفادات کو زک پہنچانا بن گیا ہے، تاکہ اسکے عالمی عزائم کو روکا جاسکے۔ اب مختلف ممالک چین کی سرمایہ کاری اور مختلف چینی کمپنیوں کے ساتھ کئے گئے تجارتی معاہدوں کا از سر نو جائزہ لے رہے ہیں۔ بعض ممالک چین کی مواصلاتی کمپنی ہواوے کا ان ممالک میں داخلہ روکنے کی کوشش میں لگ گئے ہیں۔ بعض ممالک اپنی کمپنیوں کو چین سے باہر آنے کےلئے مراعات فراہم کررہے ہیں۔ امریکا اور اسکے اتحادی انڈو پیسفک میں اپنی قوت کا مظاہرہ کرنے لگ گئے ہیں جبکہ امریکا، جاپان، آسٹریلیا اور بھارت پر مشتمل اتحار کاد ( کیو یو اے ڈی) نے خطے میں چین کے توسیع پسندانہ عزائم روکنے کےلئے متحرک ہوگیا ہے۔ امریکا اب کھلے عام چین کے خلاف باتیں کرنے لگا ہے جبکہ یورپین یونین نے بھی چین خلاف اپنا رویہ سخت کردیا ہے۔ جاپان، آسٹریلیا اور خطے کے کئی دیگر ممالک کے پاس اس چین مخالف مہم کا حصہ بننے کی اپنی وجوہات ہیں۔ بھارت میں بھی چین مخالف جذبات ابھر رہے ہیں۔
انجام کیا ہوگا
اس نئی صف بندی کا حتمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ہمیں عنقریب ہی دُنیا میں مختلف ممالک پر مشتمل دو گروپوں کے درمیاں کھلا تنازعہ دیکھنے کو ملے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چین مخالف مہم کی امریکا سرپرستی کررہا ہے اور اس کا ساتھ وہ ممالک دے رہے ہیں، جو جمہوریت، امن و قانون، شفافیت اور انسانی حقوق کی پاسداری جیسی چیزوں میں یقین رکھتے ہیں۔ لیکن یہ اوصاف اس گروہ میں نہیں ہیں، جو چین کی سرپرستی میں پیدا ہورہا ہے۔ اس میں روس، پاکستان، شمالی کوریا اور ایران جیسے ممالک شامل ہیں۔ یہ ممالک بین الاقوامی طور پر تسلیم کئے گئے اقدار کی زیادہ عزت نہیں ہے۔ تو کیا اس کا یہ مطلب ہوا کہ ہم ایک ایسے دور کی جانب جارہے ہیں، جس میں ’’جمہور نواز اتحاد‘‘ اور ’’ آمروں پر مشتمل دھڑا‘‘ ایک دوسرے کے مد مقابل ہوں؟
اچل ملہوترا (مصنف ادارہ اقوام متحدہ سے منسلک سفارتکار رہے ہیں۔ وہ جنیوا میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، ورلڈ انٹیل ایکچیول پراپرٹی آرگنائزیشن اور انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن جیسے شعبوں میں اپنی خدمات دے چکے ہیں)