ETV Bharat / bharat

' ریپڈ اینٹی باڈی ٹیسٹ صرف سرویلانس کے لیے ہیں'

author img

By

Published : Apr 20, 2020, 10:04 PM IST

انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) نے واضح کیا کہ ریپڈ اینٹی باڈی ٹیسٹ کا پوری دنیا میں کہیں بھی ذاتی طور پر تفتیش کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا ہے اور یہ صرف سرویلانس کے لیے کیا جاتا ہے۔

' ریپڈ اینٹی باڈی ٹیسٹ صرف سرویلانس کے لیے ہیں'
' ریپڈ اینٹی باڈی ٹیسٹ صرف سرویلانس کے لیے ہیں'

آئی سی ایم آر کے سائنسداں ڈاکٹر رمن آر گنگا کھیڈکر نے بتایا کہ پوری دنیا میں جہاں بھی وائرس ہوا ہے، وہاں کے لوگوں کے جسم میں اس سے لڑنے والے اینٹی باڈی کتنے مضبوط ہیں اور یہ مدافعتی نظام کی اطلاع نہیں دے سکتا ہے اور اس کا استعمال محض سرویلانس یعنی خصوصی علاقے میں بیماری کا رخ جاننے کے لیے کیا جاتا ہے۔

مغربی بنگال میں بھیجی گئی ٹیسٹ کٹ میں خرابی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر گنگاکھیڑکر نے کہا کہ یہ تمام کٹ سی بی آئی بی ڈی سے توثیق شدہ ہیں اور ان کی اسفیسیفیسِٹی اینڈ سینسیٹیوِٹی‘ کے دعوؤں کے مکمل جانچ پرکھ کی جا چکی تھی اور ریاست میں آر ٹی پی سی آر کی بی جی آئی کٹ کے کام نہ کرنے کی جو شکایت ملی تھی، اس میں ایک تکنیکی وجہ درجہ حرارت ہے۔ یہ کٹ 20 ڈگری درجہ حرارت پر رکھی جاتی ہیں اور تبھی بہتر نتائج دیتی ہیں لیکن اگر فیلڈ میں انھیں زیادہ درجہ حرارت پر غلطی سے رکھ دیا جائے تو نتائج میں فرق آنا لازمی ہے۔ اس لیے ان کی درجہ حرارت کی حد کو قائم رکھنا ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وائرس سے متاثر زیادہ تر مریضوں میں اس کی علامات نظر نہیں آتی ہیں یا بہت کم نظر آتی ہیں جنہیں میڈیکل کی زبان میں ’ایسِمپٹومیٹِک‘ کہا جاتا ہے۔ اگر کسی علامت والے مریض ’سِمپٹومیٹِک‘ کا ذاتی طور پر آر ٹی پی سی آر کرایا جاتا ہے تو وہ بہت پہلے ہی پازیٹیو آتا ہے لیکن ایک اسٹڈی بتاتی ہے کہ اینٹی باڈی ٹیسٹ کافی وقت کے بعد نظرآتا ہے یعنی 15 دنوں میں یہ پازیٹیو آتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ہائی رِسک علاقوں میں انفلوئنزا جیسے بیماری والے مریضوں میں اس طرح کے ٹیسٹ کیے جا سکتے ہیں لیکن ایسے لوگوں کو اپنے بارے میں معلومات بھی دینی ہوں گی۔

آئی سی ایم آر کے سائنسداں ڈاکٹر رمن آر گنگا کھیڈکر نے بتایا کہ پوری دنیا میں جہاں بھی وائرس ہوا ہے، وہاں کے لوگوں کے جسم میں اس سے لڑنے والے اینٹی باڈی کتنے مضبوط ہیں اور یہ مدافعتی نظام کی اطلاع نہیں دے سکتا ہے اور اس کا استعمال محض سرویلانس یعنی خصوصی علاقے میں بیماری کا رخ جاننے کے لیے کیا جاتا ہے۔

مغربی بنگال میں بھیجی گئی ٹیسٹ کٹ میں خرابی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر گنگاکھیڑکر نے کہا کہ یہ تمام کٹ سی بی آئی بی ڈی سے توثیق شدہ ہیں اور ان کی اسفیسیفیسِٹی اینڈ سینسیٹیوِٹی‘ کے دعوؤں کے مکمل جانچ پرکھ کی جا چکی تھی اور ریاست میں آر ٹی پی سی آر کی بی جی آئی کٹ کے کام نہ کرنے کی جو شکایت ملی تھی، اس میں ایک تکنیکی وجہ درجہ حرارت ہے۔ یہ کٹ 20 ڈگری درجہ حرارت پر رکھی جاتی ہیں اور تبھی بہتر نتائج دیتی ہیں لیکن اگر فیلڈ میں انھیں زیادہ درجہ حرارت پر غلطی سے رکھ دیا جائے تو نتائج میں فرق آنا لازمی ہے۔ اس لیے ان کی درجہ حرارت کی حد کو قائم رکھنا ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وائرس سے متاثر زیادہ تر مریضوں میں اس کی علامات نظر نہیں آتی ہیں یا بہت کم نظر آتی ہیں جنہیں میڈیکل کی زبان میں ’ایسِمپٹومیٹِک‘ کہا جاتا ہے۔ اگر کسی علامت والے مریض ’سِمپٹومیٹِک‘ کا ذاتی طور پر آر ٹی پی سی آر کرایا جاتا ہے تو وہ بہت پہلے ہی پازیٹیو آتا ہے لیکن ایک اسٹڈی بتاتی ہے کہ اینٹی باڈی ٹیسٹ کافی وقت کے بعد نظرآتا ہے یعنی 15 دنوں میں یہ پازیٹیو آتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ہائی رِسک علاقوں میں انفلوئنزا جیسے بیماری والے مریضوں میں اس طرح کے ٹیسٹ کیے جا سکتے ہیں لیکن ایسے لوگوں کو اپنے بارے میں معلومات بھی دینی ہوں گی۔

For All Latest Updates

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.