رابندرناتھ ٹیگور بنگالی زبان کے نوبل انعام یافتہ شاعر، فلسفی اور افسانہ و ناول نگار تھے۔ رابندر ناتھ ٹیگور برہمو سماج کے ایک رہنما دیندری ناتھ ٹیگور کے خاندان میں 7 مئی 1861 کو پیدا ہوئے۔
انہوں نے گھر میں تعلیم حاصل کی تھی۔ اس کے بعد سترہ برس کی عمر میں انہیں رسمی تعلیم کے لئے انگلینڈ بھیجا گیا تھا، لیکن انہوں نے وہاں اپنی تعلیم مکمل نہیں کی۔
انہوں نے شانتی نکیتن میں ایک تجرباتی اسکول کا آغاز بھی کیا جہاں انہوں نے تعلیم کے اپنے اپنشادی نظریات کی تبلیغ کی۔ یہاں وقتا فوقتا بھارتی قوم پرستی کو فروغ دیا جاتا رہا ہے۔
سنہ 1915 میں برطانوی حکومت کی طرف سے سر کا خطاب دیا گیا۔ انھیں بنگالی زبان کا شکسپیئر بھی کہا جاتا ہے۔
ٹیگور کو ابتدائی کامیابی اپنے آبائی بنگال میں ایک مصنف کی حیثیت سے ملی تھی۔ اپنی کچھ نظموں کے تراجم سے وہ مغرب میں تیزی سے مشہور ہوئے۔
درحقیقت ان کی شہرت ایک مصور، شاعر اور مصنف کے اعتبا سے ہوئی۔
ٹیگور کی ادبی خدمات کو آنے والی نسلیں نہ صرف یاد رکھیں گی بلکہ اس کا بار بار ذکر کیا جاتا رہے گا۔
ٹیگور نے ادب کے مختلف میدانوں میں کتابیں تصنیف کی ہے، جن میں شاعری، ڈرامے، قصے کہانیاں اور آب بیتی شامل ہے۔
- شاعری
بھانو سمہہ ٹھاکرر پدولی (بھانو سمہہ ٹھاکرکے نغمے (1884)
مانسی (مثالی) (1884)
سونار تاری (سونے کی کشتی)(1890)
گیتانجلی (نغموں کے نذرانے)(1910)
گیت مالا (نغموں کی مالا) (1914)
بلاکا (کرین کی اُڑان) (1916ء)
- ڈرامے
والمیکی پرتیبھا (والمیکی کی ذہانت) (1881)
وِسرجن (چڑھاوا) (1890)
راجا (اندھیرے کمرے کا بادشاہ) (1910)
ڈاک گھر (ڈاک خانہ) (1912)
اچلیاتان (بے حرکت/ساکن) (1912)
مُکتادھارا (آبشار) (1922)
رکتاکاروی (سُرخ کنیر) (1926)
- ناول
نسترنِرھ(ٹوٹا گھونسلا) (1901)
گورا (گوری رrنگت والا) (1910)
گھرویار (گھر اور دنیا) (1916)
یوگا یوگ (عمل رد عمل) (1929)
- مزید پڑھیں: ٹیگور کا بھاگلپور سے رہا ہے گہرا ناطہ
- یادداشتیں
جیون سمرتی (میری یادیں) (1912)
چھلبیلا (میرے لڑکپن کے دن) (1940)