ضلع کانپور کا خوفناک مجرم وکاس دوبے اور اس کے ساتھیوں کے انکاؤنٹر معاملات کی آزادانہ تحقیقات کے لیے جہاں مفاد عامہ کی عرضیاں ہفتہ کے روز سپریم کورٹ میں دائر کی گئیں وہیں ایک وکیل نے چیف جسٹس شرد اروند بوبڈے کو بھی عرضی لیٹر پٹیشن (لیٹر پٹیشن) بھیجا ہے۔
پہلی عرضی سپریم کورٹ کے وکیل انوپ اوستھی نے دائر کی ہے جس میں وکاس دبے اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ پولیس تصادم کی تحقیقات سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) یا قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) سے یا عدالت کی نگرانی میں کرائے جانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
مسٹر اوستھی نے اپنی عرضی میں سوال اٹھایا ہے کہ جلد انصاف کے نام پر کیا پولیس اس طرح سے قانون اپنے ہاتھ لے سکتی ہے؟ اسی کے ساتھ ہی، پیپلز یونین برائے سول لبرٹیز (پی یو سی ایل) نے ایک مفاد عامہ عرضی داخل کرکے تصادم کے ان واقعات کی خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) سے جانچ کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایڈوکیٹ آن ریکارڈ (اے او آر) مسٹر اوستھی نے اپنی درخواست میں ’اوم پرکاش اور دیگر بمقابلہ حکومت جھارکھنڈ‘ کے معاملے میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس افسران محض اس لیے نہیں مار سکتے کیونکہ کہ وہ مجرم ہے، پولیس کا کام مجرم کی گرفتاری اور ان کا مقدمہ چلانا ہے۔ انکاؤنٹر کو قانونی طور پر بھارت کے فوجداری انصاف کے نظام کے تحت تسلیم نہیں کیا گیا ہے اور یہ حکومت کے زیر انتظام دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔
درخواست گزار نے عرضی میں سوالات اٹھائے ہیں کہ کیا قانون کی حکمرانی کے تحت چلنے والے جمہوری معاشرے میں فوجداری کاروائی کو دفاع بتاکر فوری انصاف کے لیے انکاؤنٹر جیسے اقدامات کی اجازت دی جاسکتی ہے؟
مسٹر اوستھی نے کہا ہے کہ کیا وکاس دوبے کے گھر کو منہدم کرکے اسے اور اس کے ساتھیوں کو مبینہ تصادم میں مار کر مجرموں، پولیس اہلکاروں اور سیاستدانوں کے مابین گٹھ جوڑ کو اجاگر ہونے سے بچانے کی کوشش تو نہیں کی گئی ہے؟
دوسری جانب غیر سرکاری تنظیم پی یو سی ایل نے بھی محترمہ اپرنا بھٹ کے ذریعہ دائر درخواست میں مبینہ تصادم کی ایس آئی ٹی تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ پی یو سی ایل نے عدالت سے اترپردیش سے باہر کے پولیس افسران سے تحقیقات کرانے کے لیے ہدایت دینے کی بھی درخواست کی ہے۔