ETV Bharat / bharat

پاکستانی ہندو بھارت میں کتنے خوش ہیں؟

پاکستان سے نقل مکانی کر کے بھارت آنے والے گوندہ کا کہنا ہےکہ بہتر زندی کی تلاش میں بھارت آئے تھے لیکن جینے کی ضرورت اب تک ستا رہی ہے۔

متعلقہ تصویر
author img

By

Published : Jun 21, 2019, 10:58 AM IST

دہلی میں کشمیری گیٹ کے پاس مجنوں ٹیلے کے نزدیک تقریبا 5 سو پاکستانی مہاجرین کی تعداد رہتی ہے۔

ٹوٹی پھوٹی جھگیوں میں رہ رہے لوگوں کی زندگی کو دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہےکہ یہاں پاکستانی مہاجرین کس طرح کی زندگی گذارنے کو مجبور ہیں۔

کیا پاکستانی مہاجرین بھارت میں آکر خوش ہیں؟

ای ٹی وی بھارت نے یہاں کے لوگوں کے موجودہ حالات کے علاوہ یہ بھی سمجھنے کی کوشش کی کہ آخر کن حالات میں انہیں پاکستان چھوڑ کر بھارت آنا پڑا۔

67 سالہ گوندہ کا کہنا ہےکہ بہتر زندی کی تلاش میں بھارت آئے تھے لیکن جینے کی ضرورت اب تک ستا رہی ہے۔

سنہ 2011 میں پاکستانی ہندوں کا جو پہلا قافلہ بھارت آیا تھا اس میں سبھی لوگو دہلی کے مختلف علاقوں میں آباد ہو گئے۔ لیکن بھارتی حکومت نے سبھی کو ایک جگہ پر رہنے کی بات کہی جس کے نتیجے میں تمام پاکستانی مہاجرین مجنوں کے ٹیلے کے پاس آباد ہو گئے۔

مہاجر کلونتی دیوی کا کہنا ہے کہ بھارت ہمارا ملک ہے اس لیے وہ یہاں پر آ گئیں۔ انہوں نے بھارت اور پاکستان کی زندگی کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں انہیں رہنے کی آزادی نہیں تھی جبکہ بھارت میں وہ ہر طرح کی آزادی محسوس کرتی ہیں۔

ایک برس قبل بھارت آئی ویجنتی مالا اور للیتا دونوں بہنوں کا درد کچھ اس طرح ہے کہ ان کے پاس شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے دونوں کو اسکولوں میں داخلہ نہیں مل پا رہا ہے۔

بہر حال 120 خاندان کے لوگوں نے پاکستان سے بھارت کا رخ اچھی زندگی کی تلاش میں کیا تھا، لیکن پاکستانی مہاجرین یہاں آکر جس طرح کی زندگی گزار رہے ہیں وہ ان کے بچوں کے تئیں فکر مند کرتی ہے۔ اس کے با وجود بھی انہیں مستقبل میں اچھے دنوں کی امید ہے۔

دہلی میں کشمیری گیٹ کے پاس مجنوں ٹیلے کے نزدیک تقریبا 5 سو پاکستانی مہاجرین کی تعداد رہتی ہے۔

ٹوٹی پھوٹی جھگیوں میں رہ رہے لوگوں کی زندگی کو دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہےکہ یہاں پاکستانی مہاجرین کس طرح کی زندگی گذارنے کو مجبور ہیں۔

کیا پاکستانی مہاجرین بھارت میں آکر خوش ہیں؟

ای ٹی وی بھارت نے یہاں کے لوگوں کے موجودہ حالات کے علاوہ یہ بھی سمجھنے کی کوشش کی کہ آخر کن حالات میں انہیں پاکستان چھوڑ کر بھارت آنا پڑا۔

67 سالہ گوندہ کا کہنا ہےکہ بہتر زندی کی تلاش میں بھارت آئے تھے لیکن جینے کی ضرورت اب تک ستا رہی ہے۔

سنہ 2011 میں پاکستانی ہندوں کا جو پہلا قافلہ بھارت آیا تھا اس میں سبھی لوگو دہلی کے مختلف علاقوں میں آباد ہو گئے۔ لیکن بھارتی حکومت نے سبھی کو ایک جگہ پر رہنے کی بات کہی جس کے نتیجے میں تمام پاکستانی مہاجرین مجنوں کے ٹیلے کے پاس آباد ہو گئے۔

مہاجر کلونتی دیوی کا کہنا ہے کہ بھارت ہمارا ملک ہے اس لیے وہ یہاں پر آ گئیں۔ انہوں نے بھارت اور پاکستان کی زندگی کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں انہیں رہنے کی آزادی نہیں تھی جبکہ بھارت میں وہ ہر طرح کی آزادی محسوس کرتی ہیں۔

ایک برس قبل بھارت آئی ویجنتی مالا اور للیتا دونوں بہنوں کا درد کچھ اس طرح ہے کہ ان کے پاس شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے دونوں کو اسکولوں میں داخلہ نہیں مل پا رہا ہے۔

بہر حال 120 خاندان کے لوگوں نے پاکستان سے بھارت کا رخ اچھی زندگی کی تلاش میں کیا تھا، لیکن پاکستانی مہاجرین یہاں آکر جس طرح کی زندگی گزار رہے ہیں وہ ان کے بچوں کے تئیں فکر مند کرتی ہے۔ اس کے با وجود بھی انہیں مستقبل میں اچھے دنوں کی امید ہے۔

Intro:20 जून को विश्व भर में शरणार्थी दिवस के दिन रूप में मनाया जाता है. इस अवसर पर ईटीवी भारत ने दिल्ली में आकर बसे पाकिस्तानी हिंदू शरणार्थियों की जिंदगी को नजदीक से जानने समझने की कोशिश की.


Body:नई दिल्ली: दिल्ली में कश्मीरी गेट के पास मजनू टीला के बगल में करीब 500 पाकिस्तानी रहते हैं, इनमें से ज्यादातर बीते 6-7 सालों में पाकिस्तान से आकर यहां बसे हैं. टूटी हुई झुग्गियों में रोजमर्रा की जरूरतों के सामानों के अभाव से समझा जा सकता है कि ये यहां कैसी जिंदगी जीने को मजबूर हैं. ईटीवी भारत ने यहां के कई लोगों से बातचीत की और समझने की कोशिश की कि क्या कारण रहे कि इन्हें पाकिस्तान से हिंदुस्तान आकर बसना पड़ा और हिंदुस्तान में बसने के बाद जिंदगी कैसी है.

7 साल पहले पाकिस्तान से आकर यहां बसे 67 वर्षीय गोविंदा बताते हैं कि अच्छी जिंदगी की उम्मीद लेकर हिंदुस्तान आए थे. जिंदगी तो मिल गई, लेकिन जीने की जरूरत अब तक सता रही है. टूटी छप्पर से झांकते आसमान की तरफ इशारा करते हुए वे कहते हैं कि इसी हाल में बीते 7 साल से जी रहे हैं. पानी की व्यवस्था है नहीं, बिजली भी नहीं है. ताराचंद की व्यथा भी कुछ ऐसी ही है. उन्होंने बताया कि बंटवारे के बाद पाकिस्तान में हिंदुओं की दशा को ज्यादा खराब हो गई. हमें कहा जाने लगा कि आप हिंदू हो, आपका मुल्क हिंदुस्तान है, आप हिंदुस्तान जाओ और इसी में एक दिन हम अपना सबकुछ छोड़कर यहां आ गए.

2001 में पाकिस्तानी हिंदुओं का जो पहला जत्था आया था, उसमें सोना दास भी आए थे. उस समय दिल्ली के अलग-अलग इलाकों में ये लोग रहने लगे. लेकिन फिर बाद में सरकार की तरफ से कहा गया कि आप सभी एक जगह पर इकट्ठे बस जाएं. फिर इन्हें मजनूं का टीला के पास जगह दी गई. सोना दास यहां रहने वाले सभी लोगों के प्रधान हैं. वे हर जरूरत या काम में इनका नेतृत्व करते हैं. सोना दास ने बताया कि ये लोग यहां पर इज्जत से रहे तो रहे हैं, लेकिन सुविधाओं का अभी भी पूरा अभाव है. उन्होंने कहा कि बस हमें नागरिकता की दरकार है कि हिंदुस्तान हमें अपना ले.

मिट्टी के चूल्हे पर लकड़ी की आग जला कर रोटी बनाती कुलवंती बुलंद आवाज में कहती हैं कि यह हमारा देश था इसलिए हम यहां पर चले आए. यह पूछने पर कि आप तो पाकिस्तान में जन्मी, हिंदुस्तान को आप इतने हक से अपना देश कैसे मानती हैं, तो उन्होंने कहा कि हम वहां पर गीता भी पढ़ते थे, रामायण भी पढ़ते थे. यह पूछने पर कि हिन्दुस्तान और पाकिस्तान में क्या अंतर दिखा, तो कुलवंती ने बताया कि वहां पर मंगलसूत्र पहनने पर पाबंदी थी, सिंदूर लगाने पर पाबंदी थी, लेकिन यहां पर ऐसा कुछ नहीं है और यहां हम अच्छे से जिंदगी जी रहे हैं.

करीब 6 साल पहले पाकिस्तान से अपने घर वालों के साथ हिंदुस्तान आई दो बहनों वैजयंती माला और ललिता का दर्द यह है यहां पर उन्हें स्कूल में एडमिशन नहीं मिल पा रहा. दोनों बहने पढ़कर कुछ बेहतर करना चाहती हैं, लेकिन नागरिकता उनके सपनों की आड़े आ जाती है. वैजयंती माला कहती है कि वे तो उम्मीदों के साथ भारत आई थीं, लेकिन यहां पर उम्मीदें दम तोड़ती दिख रही हैं.




Conclusion:करीब 120 परिवारों की इस बस्ती में सभी पाकिस्तान से अच्छी जिंदगी के सपने लेकर हिंदुस्तान आए थे कि हिंदुस्तान उन्हें अपना लेगा. जिस हिंदू पहचान ने उन्हें अपने घर, अपनी जमीन और अपनी संपत्ति से बेदखल कर दिया, वहीं हिंदू पहचान शायद भारत में उनकी ताकत बन जाए, लेकिन बीते कुछ सालों में जिस तरह वे एक ही जिंदगी जी रहे हैं, वह आगे भी उन्हें डराता है कि क्या बड़े होते उनके बच्चे भी इसी जिंदगी को प्राप्त होंगे. वर्तमान तो अभावों में गुजर रहा है, लेकिन भविष्य की अभी भी उम्मीदें हैं.
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.