دہلی میں کشمیری گیٹ کے پاس مجنوں ٹیلے کے نزدیک تقریبا 5 سو پاکستانی مہاجرین کی تعداد رہتی ہے۔
ٹوٹی پھوٹی جھگیوں میں رہ رہے لوگوں کی زندگی کو دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہےکہ یہاں پاکستانی مہاجرین کس طرح کی زندگی گذارنے کو مجبور ہیں۔
ای ٹی وی بھارت نے یہاں کے لوگوں کے موجودہ حالات کے علاوہ یہ بھی سمجھنے کی کوشش کی کہ آخر کن حالات میں انہیں پاکستان چھوڑ کر بھارت آنا پڑا۔
67 سالہ گوندہ کا کہنا ہےکہ بہتر زندی کی تلاش میں بھارت آئے تھے لیکن جینے کی ضرورت اب تک ستا رہی ہے۔
سنہ 2011 میں پاکستانی ہندوں کا جو پہلا قافلہ بھارت آیا تھا اس میں سبھی لوگو دہلی کے مختلف علاقوں میں آباد ہو گئے۔ لیکن بھارتی حکومت نے سبھی کو ایک جگہ پر رہنے کی بات کہی جس کے نتیجے میں تمام پاکستانی مہاجرین مجنوں کے ٹیلے کے پاس آباد ہو گئے۔
مہاجر کلونتی دیوی کا کہنا ہے کہ بھارت ہمارا ملک ہے اس لیے وہ یہاں پر آ گئیں۔ انہوں نے بھارت اور پاکستان کی زندگی کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں انہیں رہنے کی آزادی نہیں تھی جبکہ بھارت میں وہ ہر طرح کی آزادی محسوس کرتی ہیں۔
ایک برس قبل بھارت آئی ویجنتی مالا اور للیتا دونوں بہنوں کا درد کچھ اس طرح ہے کہ ان کے پاس شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے دونوں کو اسکولوں میں داخلہ نہیں مل پا رہا ہے۔
بہر حال 120 خاندان کے لوگوں نے پاکستان سے بھارت کا رخ اچھی زندگی کی تلاش میں کیا تھا، لیکن پاکستانی مہاجرین یہاں آکر جس طرح کی زندگی گزار رہے ہیں وہ ان کے بچوں کے تئیں فکر مند کرتی ہے۔ اس کے با وجود بھی انہیں مستقبل میں اچھے دنوں کی امید ہے۔