پاکستانی سپریم کورٹ نے امریکی صحافی ڈینیل پرل کا سر قلم کرنے کے الزام میں پاکستانی نژاد برطانوی شہری کو مقدمہ میں بری ہونے پر تحقیقات کا حکم دیا اور قیدی کو حکومت کے سیف ہاؤز منتقل کرنے کا حکم جاری کیا۔
احمد سعید شیخ کے والد جو اس مقدمہ کی سماعت میں موجود تھے، انہوں نے کہا کہ یہ مکمل آزادی نہیں ہے لیکن آزادی کی سمت ایک قدم ہے۔
پاکستانی حکومت سعید احمد کو جیل میں رکھنے کے لیے جدوجہد کررہی ہے جبکہ سپریم کورٹ نے سعید کو بری کرنے کے فیصلہ کو برقرار رکھا ہے۔ اس سے پرل کے خاندان اور امریکی انتظامیہ نے برہمی کا اظہار کیا ہے۔
آخری کوشش کے طور پر پاکستانی حکومت اور ڈینیل پرل کے خاندان نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی اور عدالت سے اپیل کی کہ فیصلہ پر نظر ثانی کی جائے۔
پریل کے وکیل فیصل شیخ نے کہا کہ اس اپیل میں کامیابی کے امکانات بہت ہی کم ہیں کیونکہ اس جج نے شیخ کو بری کیا تھا، اپیل کی عرضی کی بھی وہی سماعت کرے گا۔
امریکی حکومت نے کہا کہ اگر شیخ کو بری کرنے کا فیصلہ برقرار رکھا گیا تو امریکی حکومت اس کی تحویل مانگے گی۔ شیخ امریکہ میں پرل کے قتل اور ایک اور امریکی کے اغوا کے مقدمہ میں مطلوب ہے۔ یہ دوسرا امریکی شہری بعد میں رہا کردیا گیا تھا۔
حکومت کے سیف ہاؤز میں شیخ کو 24 گھنٹے فوجی اہلکاروں کی نگرانی میں رکھا جائے گا اور اسے سیف ہاؤز سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس سیف ہاؤز کے بارے میں کسی کو بھی نہیں بتایا گیا ہے۔ پاکستان بھر میں اس طرح کے کئی سیف ہاؤز بنائے گئے ہیں۔
ڈینیل پرل 23 جنوری 2002 کو کراچی میں لاپتہ ہوگیا تھا جہاں وہ پاکستانی عسکریت پسند گروپوں اور رچرڈ سی ریڈ کے مابین روابط کی تحقیقات کر رہا تھا، پیرس سے میامی جانے والی پرواز کو دھماکہ خیز مواد سے اڑانے کی کوشش کے بعد اس شخص کو شو بامبر کے نام سے جانا جانے لگا۔
صوبہ سندھ نے شیخ کو عدالتی احکامات کے باوجود بھی رہا کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اس سے سندھ حکومت کو توہین عدالت کے مقدمات کا سامنا کرنے پڑے گا۔