1857 کے انقلاب کے بعد بھارت میں موجود برطانوی سامراج کے پیروں تلے زمین کھسک گئی تھی، برطانوی فوجی افسران بوکھلا گئے تھے جس کے بعد انہوں نے خفیہ میٹنگز کیں اور اپنا پروپیگنڈا تیار کیا، اسی کے بعد میوات میں یہ خوفناک منظر دیکھا گیا۔
اسی تاریخی دن سے متعلق ای ٹی وی بھارت نے مؤرخ میوات صدیق احمد میو سے خصوصی بات کی۔ صدیق احمد نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میواتیوں نے جب انگریزوں کو میوات سے مار بھگایا تھا تب انہوں نے اپنے مجسٹریٹ کو یہاں بھیجا تھا۔
وہ بتاتاے ہیں کہ مجسٹریٹ نے میوات کے لوگوں کو سمجھوتہ کرنے اور سب کچھ رفع دفع کرنے کے بہانے پنچایت کے لیے بلایا، جب میوات کے معزز لوگ جمع ہوئے تو انہیں انگریزی فوج نے گھیر لیا۔
مدرسہ معین الاسلام جسے اب بڑا مدرسہ کہا جاتا ہے کے پاس ایک کنواں تھا جس کے سامنے ایک بڑ کا درخت تھا اس درخت پر پھانسی کا پھندا لٹکایا گیا اور مجاہدین آزادی کو ایک قطار میں کھڑا کر دیا گیا اس کے بعد ہر شخص کو ہاتھی پر لے جایا جاتا درخت پر پھندہ پہنا دیا جاتا اور پھر ہاتھی کو آگے بڑھا دیا جاتا۔
وہ کہتے ہیں 'اس طرح میوات کے مجاہدین آزادی اپنی موت کو سامنے دیکھ کر اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے جب یہ سلسلہ 52 قربانیوں تک پہنچ گیا تو نوح کے قریبی گاؤں میولی گاؤں سے چودھری میدا گاؤں سے آئے اور اس ظالمانہ سلسلہ کو رکوایا۔ میوات کے لوگ اس دن شہیدان دیوس کے طور پر مناتے ہیں۔'