ETV Bharat / bharat

کیڑے مار ادویات پر پابندی کا نوٹیفیکیشن

نیشنل ایسوسی ایشن آف انڈیا کے ڈائریکٹر اندرا شیکھر سنگھ نے مرکزی حکومت کے ذریعہ کیڑے مار ادویات پر پابندی کا نوٹیفیکیشن دیے جانے پر کہا ہے کہ حکومت استعمال میں آنے والی کیڑے مار ادویات پر پابندی سے پہلے سیڈ ٹریٹمنٹ کیلئے متبادل کمیکل/ کیڑے مار ادویات تجویز کر سکتی ہے۔جو نئے کمیکل تجویز کئے جا رہے ہیں ان کی بھی پہلے آزمائش ہونی چاہئے اس کے بعد زیر استعمال کیڑے مار ادویات پر مرحلہ وار پابندی نافذ کی جانی چاہئے۔

author img

By

Published : Jun 2, 2020, 4:07 PM IST

زیر استعمال کیڑے مار ادویات پر پابندی کا نوٹیفیکیشن
زیر استعمال کیڑے مار ادویات پر پابندی کا نوٹیفیکیشن

مرکزی وزارت زراعت و کسان بہبود نے 14 مئی کو ایک ڈرافٹ نوٹیفکیشن میں27 کیڑے مار ادویات کو انسان اور جانوروں پرمضر اثرات کی وجہ سے ممنوع قراردیا۔حکومت نے اس ضمن میں اعتراضات اور تجاویز دینے کیلئے ڈیڑھ ماہ کی مہلت دی۔جن 27 کیڑے مار ادویات پر پابندی عائد کی ان میں تھیرم، میلتھیون، کاربینڈزم، ڈیلٹامیتھرین، کپتان، کلور پائیریفوس( Thiram, Captan, Deltamethrin and Carbendizm, Malathion اور Chlorpyriphos)وغیرہ شامل ہیں۔ایک اور کیڑے مار دوا ڈائی کلورووس یا ڈی ڈی وی پی پر 31 دسمبر سے مکمل پابندی عائد کی جائیگی۔

حکومت ملک کو ماحولیاتی طور پر محفوظ بنانے کیلئے اقدامات کررہی ہے کیونکہ بیشتر کیڑے مار دوائیاں انتہائی زہریلی ہیں ۔ اس وقت ان کے متبادل بھی دستیاب ہیں جنہیں ان کے مقابلے میں زیادہ محفوظ تصور کیا جاتا ہے ۔حکومت نے کسانوں اور ملک کی معیشت کے حق میں کام کیا ہے ۔کئی صنعتیں جن میں شہد کی مکھیاں پالنے والے آرگینک فارمنگ، مسالا صنعت سے وابستہ افراد، حکومت کے اس حکم نامے کا خیر مقدم کررہے ہیں۔

لیکن ہمیں اس حکم نامے کو بیج کی صنعت کے تناظر میںبھی دیکھنا چاہئے ۔فصلوں کے علاوہ ان ممنوع کیڑے مار ادویات کا استعمال صنعتوں میں بھی بیج اور اس کو لگنے والی مختلف بیماریوں سے محفوظ رکھنے کیلئے کیاجاتا ہے ۔اس ضمن میں جو کیڑے مار دوا سب سے زیادہ استعمال ہوتی ہے ان میں Thiram, Captan, Deltamethrin and Carbendizm ہیں‘جو ممنوع فہرست میں شامل ہے ۔

ڈیلٹا میتھرین وہ کیڑے مار دوائی ہے جو مٹی میں پائی جانے والی بیماری کیخلاف استعمال ہو تی ہے اور جسے مکئی، باجرا، جوار، سورج مکھی ، سرسو اور سبزیوں کے سیڈ ٹریٹمنٹ کیلئے بروئے کار لائی جاتی ہے ۔یہ کفایتی ہے اور اسے صنعت کاربینڈیزم(carbendazim) کے ہمراہ کئی دہائیوں سے استعمال کر رہی ہے۔

اگر ہم تھرم (Thiram ) کی بات کریں تو یہ سیڈ ٹریٹمنٹ کیلئے سب سے موثر کیڑے مار دوا ہے جو بازار میں دستیاب ہے ۔یہ خاص کر ان کسانوں کیلئے اور زیادہ ضروری بن جاتا ہے جو دھان اور دالوں کے بیج سے زیادہ تر کام کرتے رہتے ہیں ۔قابل ذکر ہے کہ دھان اور دالوں کے بیج ہایئرڈ بیج سے زیادہ سستا ہے ۔یہ کسان اونچے دام والی کیڑے مار دوائی خرید نہیں سکتے ہیں کیونکہ ان کا منافع بہت کم ہوتا ہے ۔تھرم( Thiram) اورکاربینڈیزم (Carbendazim) کے استعمال کی اجازت ان فصلوں، جیسے گندم اور دھان، کیلئے بھی دی جانی چاہئے، جہاںرقبہ کے اعتبار سے بیج کی ضرورت زیادہ ہے(بیس سے چالیس کلوگرام )اور بیج کی قیمت فی کلو گرام تیس روپے سے کم ہو۔

ان کیڑے مار ادویات کو سیڈ ٹریٹمنٹ کیلئے بروئے کار لانے سے بیشتر بیج تیار کرنے والی کمپنیوں اور کسانوںکو فائدہ پہنچ جائیگا کیونکہ ان کیڑے مار ادویات سے سیڈ ٹریٹمنٹ پر لاگت نسبتاً نئی تجویز کردہ ادویات سے کم ہے ۔

حکومت استعمال میں آنے والی کیڑے مار ادویات پر پابندی عملانے سے پہلے سیڈ ٹریٹمنٹ کیلئے متبادل کمیکل/ کیڑے مار ادویات تجویز کر سکتی ہے۔جو نئے کمیکل تجویز کئے جا رہے ہیں ان کی بھی پہلے آزمائش ہونی چاہئے اس کے بعد زیر استعمال کیڑے مار ادویات پر مرحلہ وار پابندی نافذ کی جانی چاہئے ۔

ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ جو نئی کیڑے مار ادویات تجویز کئے جا رہے ہیں کیا ان کی قیمت ایک عام کسان برداشت کر سکتا ہے یا نہیں ۔اگر نئی ادویات مہنگی ہیں، اس سے بیج کی قیمت متاثر ہو جائیگی جو کسانوں کیلئے مزید مہنگے ثابت ہو ں گے ۔ زیر استعمال کیڑے مار ادویات کا متبادل اگر کوئی سستا متبادل دستیاب نہیں ہو گا تو کسانوں کو مٹی کو لاحق بیماریوں سے نقصان ہوگا کیونکہ مجموعی پیداوار میں گراوٹ آئیگی جس سے ان کے منافع کا حجم کم ہو گا،بیج کی صنعت بھی متاثر ہو گی اور یوں زراعت کا شعبہ اثر انداز ہوگا۔

مرحلہ وارپابندی کے مکمل نفاذ میں تین چار سال لگنے چاہئیں تاکہ موجودہ کیڑے مار ادویات اور ٹریٹیڈ سیڈ کا سٹاک ختم ہوسکے ۔اس بیج کو سٹاک ختم ہونے تک فروخت کرنے کی اجازت ہونی چاہئے ۔

کیمیکل کیڑے مار ادویات کے علاوہ حکومت کو حیاتیاتی اور نینو ٹیکنالوجی والی سیڈ ٹریٹمنٹ کے استعمال کر بھی غور کرنا چاہئے تاکہ کسانوں اور سیڈ انڈسٹری کو ایک موثرحل فراہم ہو سکے۔پبلک سسٹم میں بھی ریسرچ اینڈ ڈولپمنٹ کی ضرورت ہے تاکہ بائیو کنٹرول اور نینو ٹیکنالوجی انٹرونشنز بنائے جا سکیں کیونکہ یہ فطرت سے فطرت کا مقابلہ کرنے کیلئے موثر ثابت ہو سکتا ہے ۔ لاکھوں بیکٹریا اور فنگی موجود ہے ‘ جو فطرتی طور پر کیڑوں اور بیماریوں سے لڑ تے ہیں اور ساتھ میں ماحولیات پر بھی کوئی منفی اثر نہیں پڑتا ہے ۔ چونکہ یہ پروڈکٹ پبلک سسٹم میں بنائے جائیں گے، ان کا کوئی پیٹنٹ نہیں ہو گا اور یوں زراعت اور اس سے منسلک شعبوں میں لاگت کم ہوگی جس سے کسانوں کے ساتھ ساتھ ماحولیات کو بھی فائدہ ہوگا.

مرکزی وزارت زراعت و کسان بہبود نے 14 مئی کو ایک ڈرافٹ نوٹیفکیشن میں27 کیڑے مار ادویات کو انسان اور جانوروں پرمضر اثرات کی وجہ سے ممنوع قراردیا۔حکومت نے اس ضمن میں اعتراضات اور تجاویز دینے کیلئے ڈیڑھ ماہ کی مہلت دی۔جن 27 کیڑے مار ادویات پر پابندی عائد کی ان میں تھیرم، میلتھیون، کاربینڈزم، ڈیلٹامیتھرین، کپتان، کلور پائیریفوس( Thiram, Captan, Deltamethrin and Carbendizm, Malathion اور Chlorpyriphos)وغیرہ شامل ہیں۔ایک اور کیڑے مار دوا ڈائی کلورووس یا ڈی ڈی وی پی پر 31 دسمبر سے مکمل پابندی عائد کی جائیگی۔

حکومت ملک کو ماحولیاتی طور پر محفوظ بنانے کیلئے اقدامات کررہی ہے کیونکہ بیشتر کیڑے مار دوائیاں انتہائی زہریلی ہیں ۔ اس وقت ان کے متبادل بھی دستیاب ہیں جنہیں ان کے مقابلے میں زیادہ محفوظ تصور کیا جاتا ہے ۔حکومت نے کسانوں اور ملک کی معیشت کے حق میں کام کیا ہے ۔کئی صنعتیں جن میں شہد کی مکھیاں پالنے والے آرگینک فارمنگ، مسالا صنعت سے وابستہ افراد، حکومت کے اس حکم نامے کا خیر مقدم کررہے ہیں۔

لیکن ہمیں اس حکم نامے کو بیج کی صنعت کے تناظر میںبھی دیکھنا چاہئے ۔فصلوں کے علاوہ ان ممنوع کیڑے مار ادویات کا استعمال صنعتوں میں بھی بیج اور اس کو لگنے والی مختلف بیماریوں سے محفوظ رکھنے کیلئے کیاجاتا ہے ۔اس ضمن میں جو کیڑے مار دوا سب سے زیادہ استعمال ہوتی ہے ان میں Thiram, Captan, Deltamethrin and Carbendizm ہیں‘جو ممنوع فہرست میں شامل ہے ۔

ڈیلٹا میتھرین وہ کیڑے مار دوائی ہے جو مٹی میں پائی جانے والی بیماری کیخلاف استعمال ہو تی ہے اور جسے مکئی، باجرا، جوار، سورج مکھی ، سرسو اور سبزیوں کے سیڈ ٹریٹمنٹ کیلئے بروئے کار لائی جاتی ہے ۔یہ کفایتی ہے اور اسے صنعت کاربینڈیزم(carbendazim) کے ہمراہ کئی دہائیوں سے استعمال کر رہی ہے۔

اگر ہم تھرم (Thiram ) کی بات کریں تو یہ سیڈ ٹریٹمنٹ کیلئے سب سے موثر کیڑے مار دوا ہے جو بازار میں دستیاب ہے ۔یہ خاص کر ان کسانوں کیلئے اور زیادہ ضروری بن جاتا ہے جو دھان اور دالوں کے بیج سے زیادہ تر کام کرتے رہتے ہیں ۔قابل ذکر ہے کہ دھان اور دالوں کے بیج ہایئرڈ بیج سے زیادہ سستا ہے ۔یہ کسان اونچے دام والی کیڑے مار دوائی خرید نہیں سکتے ہیں کیونکہ ان کا منافع بہت کم ہوتا ہے ۔تھرم( Thiram) اورکاربینڈیزم (Carbendazim) کے استعمال کی اجازت ان فصلوں، جیسے گندم اور دھان، کیلئے بھی دی جانی چاہئے، جہاںرقبہ کے اعتبار سے بیج کی ضرورت زیادہ ہے(بیس سے چالیس کلوگرام )اور بیج کی قیمت فی کلو گرام تیس روپے سے کم ہو۔

ان کیڑے مار ادویات کو سیڈ ٹریٹمنٹ کیلئے بروئے کار لانے سے بیشتر بیج تیار کرنے والی کمپنیوں اور کسانوںکو فائدہ پہنچ جائیگا کیونکہ ان کیڑے مار ادویات سے سیڈ ٹریٹمنٹ پر لاگت نسبتاً نئی تجویز کردہ ادویات سے کم ہے ۔

حکومت استعمال میں آنے والی کیڑے مار ادویات پر پابندی عملانے سے پہلے سیڈ ٹریٹمنٹ کیلئے متبادل کمیکل/ کیڑے مار ادویات تجویز کر سکتی ہے۔جو نئے کمیکل تجویز کئے جا رہے ہیں ان کی بھی پہلے آزمائش ہونی چاہئے اس کے بعد زیر استعمال کیڑے مار ادویات پر مرحلہ وار پابندی نافذ کی جانی چاہئے ۔

ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ جو نئی کیڑے مار ادویات تجویز کئے جا رہے ہیں کیا ان کی قیمت ایک عام کسان برداشت کر سکتا ہے یا نہیں ۔اگر نئی ادویات مہنگی ہیں، اس سے بیج کی قیمت متاثر ہو جائیگی جو کسانوں کیلئے مزید مہنگے ثابت ہو ں گے ۔ زیر استعمال کیڑے مار ادویات کا متبادل اگر کوئی سستا متبادل دستیاب نہیں ہو گا تو کسانوں کو مٹی کو لاحق بیماریوں سے نقصان ہوگا کیونکہ مجموعی پیداوار میں گراوٹ آئیگی جس سے ان کے منافع کا حجم کم ہو گا،بیج کی صنعت بھی متاثر ہو گی اور یوں زراعت کا شعبہ اثر انداز ہوگا۔

مرحلہ وارپابندی کے مکمل نفاذ میں تین چار سال لگنے چاہئیں تاکہ موجودہ کیڑے مار ادویات اور ٹریٹیڈ سیڈ کا سٹاک ختم ہوسکے ۔اس بیج کو سٹاک ختم ہونے تک فروخت کرنے کی اجازت ہونی چاہئے ۔

کیمیکل کیڑے مار ادویات کے علاوہ حکومت کو حیاتیاتی اور نینو ٹیکنالوجی والی سیڈ ٹریٹمنٹ کے استعمال کر بھی غور کرنا چاہئے تاکہ کسانوں اور سیڈ انڈسٹری کو ایک موثرحل فراہم ہو سکے۔پبلک سسٹم میں بھی ریسرچ اینڈ ڈولپمنٹ کی ضرورت ہے تاکہ بائیو کنٹرول اور نینو ٹیکنالوجی انٹرونشنز بنائے جا سکیں کیونکہ یہ فطرت سے فطرت کا مقابلہ کرنے کیلئے موثر ثابت ہو سکتا ہے ۔ لاکھوں بیکٹریا اور فنگی موجود ہے ‘ جو فطرتی طور پر کیڑوں اور بیماریوں سے لڑ تے ہیں اور ساتھ میں ماحولیات پر بھی کوئی منفی اثر نہیں پڑتا ہے ۔ چونکہ یہ پروڈکٹ پبلک سسٹم میں بنائے جائیں گے، ان کا کوئی پیٹنٹ نہیں ہو گا اور یوں زراعت اور اس سے منسلک شعبوں میں لاگت کم ہوگی جس سے کسانوں کے ساتھ ساتھ ماحولیات کو بھی فائدہ ہوگا.

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.