نئی دہلی: مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ میں کہا ہے کہ تبدیلی مذہب یا بین مذاہب شادیوں پر پابندی کے لیے قانون لانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے کیوںکہ یہ ریاست کے اختیار کے تحت آتا ہے۔
بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں میں اس طرح کے قوانین کے درمیان مرکزی حکومت کی طرف سے یہ وضاحت سامنے آئی ہے۔ مرکزی وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ مذہب کی تبدیلی سے متعلقہ معاملات بنیادی طور پر ریاستی حکومتوں کے تابع ہیں اور اگر قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو قانون نافذ کرنے والے ادارے کارروائی کرتے ہیں۔
وزیر مملکت برائے امور داخلہ کشن ریڈی نے لوک سبھا میں ایک سوال کے تحریری جواب میں کہا کہ ' آئین کے ساتویں شیڈول کے مطابق، نظم و نسق اور پولیس ریاست کے تابع ہے، ایسے میں تبدیلی مذہب سے متعلق جرائم کو روکنا، معاملہ درج کرنا، جانچ کرنا اور مقدمہ چلانا بنیادی طور پر ریاستی حکومت سے متعلق ہے اور قانون کی خلاف ورزی کرنے پر کارروائی کی جاتی ہے۔'
مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ کا یہ بیان کیرالہ سے تعلق رکھنے والے پانچ کانگریس اراکین پارلیمنٹ کے پوچھے گئے سوال کے جواب میں آیا ہے۔ جنہوں نے پوچھا تھا کہ کیا حکومت کو یہ لگتا ہے کہ بین المذاہب شادیوں کی وجہ سے جبراً مذہب تبدیلی کے واقعات پیش آرہی ہے اور ایسے واقعات کو رکوانےکے لیے وہ کسی قانون لانے کی تیاری کررہی ہے۔
خیال رہے کہ اتر پردیش حکومت نے بین مذاہب جوڑے کی شادی کے خلاف قانون بنایا ہے جس کے بعد مدھیہ پردیش اور اس کے بعد کرناٹک حکومت نے بھی 'لو جہاد' نام سے قانون بنایا ہے، جبکہ ہریانہ میں بھی لو جہاد پر قانون لانے کی تیاری کررہا ہے۔ جبکہ اترپردیش اور مدھیہ پردیش میں لو جہاد کے قصوار پانے جانے پر 10 برس کی سزا کا التزام کیا گیا ہے۔