ETV Bharat / bharat

مردہ گھر کی کھدائی میں تاریخی دیوار کا انکشاف، تحقیق جاری

نئی دہلی میں مولانا آزاد میڈیکل کالج کے مردہ گھر کی کھدائی تو اس لیے شروع کی گئی تھی تاکہ اسے نئے طرز پر تعمیر کیا جاسکے، لیکن کھدائی کے دوران یہاں کچھ اور ہی ملا۔ یہاں تاریخی دیوار مل گئی۔ جسے دیکھنے کے لیے ہجوم جمع ہو گیا۔

author img

By

Published : Jul 27, 2019, 3:25 PM IST

مردہ گھر کی کھدائی میں تاریخی دیوار کا انکشاف، تحقیق جاری، متعلقہ تصویر

اس بات کی اطلاع ملتے ہی محکمہ آثار قدیمہ نے یہاں کھدائی بند کروا دی ہے۔

مردہ گھر کی کھدائی میں تاریخی دیوار کا انکشاف، تحقیق جاری، متعلقہ ویڈیو

اب اس کے تاریخ کی جانچ کی جائے گی کہ یہ دیوار کب بنی تھی اور اس کے اوپر کھڑی کی گئی عمارت کس مقصد کے لیے کام میں لائی جاتی تھی۔

حالانکہ مورخوں کا کہنا ہے کہ یہ دیوار یہاں مرتضی خان کی سرائے ہوا کرتی تھی۔ جسے بعد میں جیل کے طور پر استعمال میں لایا گیا۔

مرتضی خان مغل بادشاہ کے دربار میں خزانچی تھے، جنہوں نے بعد میں شہنشاہ جہاںگیر کے ساتھ بھی کام کیا۔ بعد میں یہ کھنڈہر میں تبدیل ہوگیا اور عمارت منہدم گئی۔

مورخ اس کے تعلق سے ایک نقشہ بھی دکھاتے ہیں، جس میں بہادر شاہ ظفر روڈ پر بنے خونی دروازے سے ہوتے ہوئے اس سرائے تک قریب تک تعمیرات کو دکھایا گیا ہے۔

حالانکہ پوری سچائی جانچ کے بعد ہی سامنے آئے گی، لیکن ابھی کھدائی کے دوران یہاں سرائے ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔

اس تعلق سے مورخ لکھیندر سنگھ دعوی کرتے ہیں کہ یہ کبھی مرتضی خان کی سرائے ہوا کرتی تھی۔ اس نے اکبر اور جہاںگیر دونوں کے بادشاہت میں ایک بخشی (خزانچی) کے طور پر کام کیا تھا۔

لکھیندر کہتے ہیں کہ ثبوت اور نقشوں کی مطابق اس سرائے کے تین دروازے تھے اور اہم دروازہ مشرق کی جانب تھا۔

بعد میں انگریزوں نے تقریباً 1803 عیسوی کے بعد اسے جیل کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اس وقت قیدیوں کی تعداد کم ہوا کرتی تھی۔ بعد میں قیدیوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا تو اسے بند کر دیا گیا۔ اور دھیرے ۔ دھیرے کھنڈر بنتا گیا اور قریب 1850 عیسوی تک اس کا استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

اس بات کی اطلاع ملتے ہی محکمہ آثار قدیمہ نے یہاں کھدائی بند کروا دی ہے۔

مردہ گھر کی کھدائی میں تاریخی دیوار کا انکشاف، تحقیق جاری، متعلقہ ویڈیو

اب اس کے تاریخ کی جانچ کی جائے گی کہ یہ دیوار کب بنی تھی اور اس کے اوپر کھڑی کی گئی عمارت کس مقصد کے لیے کام میں لائی جاتی تھی۔

حالانکہ مورخوں کا کہنا ہے کہ یہ دیوار یہاں مرتضی خان کی سرائے ہوا کرتی تھی۔ جسے بعد میں جیل کے طور پر استعمال میں لایا گیا۔

مرتضی خان مغل بادشاہ کے دربار میں خزانچی تھے، جنہوں نے بعد میں شہنشاہ جہاںگیر کے ساتھ بھی کام کیا۔ بعد میں یہ کھنڈہر میں تبدیل ہوگیا اور عمارت منہدم گئی۔

مورخ اس کے تعلق سے ایک نقشہ بھی دکھاتے ہیں، جس میں بہادر شاہ ظفر روڈ پر بنے خونی دروازے سے ہوتے ہوئے اس سرائے تک قریب تک تعمیرات کو دکھایا گیا ہے۔

حالانکہ پوری سچائی جانچ کے بعد ہی سامنے آئے گی، لیکن ابھی کھدائی کے دوران یہاں سرائے ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔

اس تعلق سے مورخ لکھیندر سنگھ دعوی کرتے ہیں کہ یہ کبھی مرتضی خان کی سرائے ہوا کرتی تھی۔ اس نے اکبر اور جہاںگیر دونوں کے بادشاہت میں ایک بخشی (خزانچی) کے طور پر کام کیا تھا۔

لکھیندر کہتے ہیں کہ ثبوت اور نقشوں کی مطابق اس سرائے کے تین دروازے تھے اور اہم دروازہ مشرق کی جانب تھا۔

بعد میں انگریزوں نے تقریباً 1803 عیسوی کے بعد اسے جیل کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اس وقت قیدیوں کی تعداد کم ہوا کرتی تھی۔ بعد میں قیدیوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا تو اسے بند کر دیا گیا۔ اور دھیرے ۔ دھیرے کھنڈر بنتا گیا اور قریب 1850 عیسوی تک اس کا استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

Intro:नई दिल्ली. मौलाना आजाद मेडिकल कॉलेज के मुर्दाघर की खुदाई तो इसलिए शुरू की गई थी, ताकि नया बनाया जा सके, लेकिन यहां ऐतिहासिक दीवार मिल गई, जिसे देखने वालों की भीड़ जमा हो गई. सूचना मिलते ही भारतीय पुरातत्व सर्वेक्षण विभाग ने यहां खुदाई बंद करवा दी है. अब इसके इतिहास की जांच की जाएगी कि यह दीवार कब बनी थी और इसमें ऊपर खड़ी इमारत किस उद्देश्य के लिए काम में लाई जाती थी. हालांकि, इतिहासकारों का कहना है कि यह दीवार यहां मुर्तुज़ा खान की सराय हुआ करती थी, जिसे बाद में जेल के रूप में उपयोग में लाया गया. मुर्तुज़ा खान मुगलवंश के शासक अकबर के दरबार में बक्शी (खजांची) था, जिसने बाद में जहांगीर के साथ भी काम किया. बाद में यह खंडहर में तब्दील हुआ और इमारत ढह गई. इतिहासकार इसके पक्ष में एक नक्शा भी दिखाते हैं, जिसमे बहादुर शाह जफर रोड पर बने खूनी दरवाजे से होते हुए इस सराय के पास तक निर्माण को दिखाया गया है. हालांकि, पूरी सच्चाई जांच के बाद ही सामने आएगी, लेकिन अभी तक की स्थिति पर चलें तो यहां सराय होने का प्रमाण है.


Body:इस सम्बंध में "विरासत संस्था" के अध्यक्ष और इतिहासकार लखेंद्र सिंह प्रमाणों के आधार पर दावा करते हैं कि यह कभी मुर्तुज़ा खान की सराय हुआ करती थी. उसने अकबर और जहांगीर दोनों के शासनकाल में एक बक्शी (खजांची) के रूप में काम किया था। लखेंद्र सिंह बताते हैं कि प्रामाण और नक्शे के मुताबिक इस सराय के तीन दरवाजे थे और मुख्य दरवाजा पूरब की तरफ था.
बाद में जब अंग्रेजों ने करीब 1803 ईस्वी के बाद इसे जेल के रूप में उपयोग करना शुरू कर दिया. उस वक़्त कैदियों की संख्या कम हुआ करती थी. बाद में कैदियों की संख्या बढ़ने लगी, तो इसका उपयोग बंद कर दिया गया और देखरेख के अभाव में यह खण्डर बनता चला गया. करीब 1850 ईस्वी तक (आलमगीर द्वितीय और शाह आलम द्वितीय के शासनकाल तक) इसका उपयोग किया जाता रहा है.


Conclusion:इतिहासकार लखेंद्र सिंह बताते हैं कि यह सराय की नीव है जिसे संरक्षित करना आसान नहीं है. क्योंकि पूरी दिल्ली में काफी नीव हैं. जिसे संरक्षित नहीं किया जा सका.
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.