اس بات کی اطلاع ملتے ہی محکمہ آثار قدیمہ نے یہاں کھدائی بند کروا دی ہے۔
اب اس کے تاریخ کی جانچ کی جائے گی کہ یہ دیوار کب بنی تھی اور اس کے اوپر کھڑی کی گئی عمارت کس مقصد کے لیے کام میں لائی جاتی تھی۔
حالانکہ مورخوں کا کہنا ہے کہ یہ دیوار یہاں مرتضی خان کی سرائے ہوا کرتی تھی۔ جسے بعد میں جیل کے طور پر استعمال میں لایا گیا۔
مرتضی خان مغل بادشاہ کے دربار میں خزانچی تھے، جنہوں نے بعد میں شہنشاہ جہاںگیر کے ساتھ بھی کام کیا۔ بعد میں یہ کھنڈہر میں تبدیل ہوگیا اور عمارت منہدم گئی۔
مورخ اس کے تعلق سے ایک نقشہ بھی دکھاتے ہیں، جس میں بہادر شاہ ظفر روڈ پر بنے خونی دروازے سے ہوتے ہوئے اس سرائے تک قریب تک تعمیرات کو دکھایا گیا ہے۔
حالانکہ پوری سچائی جانچ کے بعد ہی سامنے آئے گی، لیکن ابھی کھدائی کے دوران یہاں سرائے ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔
اس تعلق سے مورخ لکھیندر سنگھ دعوی کرتے ہیں کہ یہ کبھی مرتضی خان کی سرائے ہوا کرتی تھی۔ اس نے اکبر اور جہاںگیر دونوں کے بادشاہت میں ایک بخشی (خزانچی) کے طور پر کام کیا تھا۔
لکھیندر کہتے ہیں کہ ثبوت اور نقشوں کی مطابق اس سرائے کے تین دروازے تھے اور اہم دروازہ مشرق کی جانب تھا۔
بعد میں انگریزوں نے تقریباً 1803 عیسوی کے بعد اسے جیل کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اس وقت قیدیوں کی تعداد کم ہوا کرتی تھی۔ بعد میں قیدیوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا تو اسے بند کر دیا گیا۔ اور دھیرے ۔ دھیرے کھنڈر بنتا گیا اور قریب 1850 عیسوی تک اس کا استعمال کیا جاتا رہا ہے۔