ETV Bharat / bharat

گھریلو سیاست کی وجہ سے نیپال بدل رہا ہے، جانئے ماہرین کیا کہتے ہیں

author img

By

Published : Jun 15, 2020, 2:39 PM IST

نیپالی پارلیمنٹ نے نیا سیاسی نقشہ پاس کیا ہے۔ اس بارے میں بھارت اور نیپال کے مابین سیاست گرم ہوگئی ہے۔ تاہم دونوں ممالک یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم مل بیٹھ کر اس تنازعہ کو حل کریں گے۔ لیکن نیپال امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں فریقوں نے تعلقات کو ایک 'انتہائی خطرناک نقطہ' پر پہنچا دیا ہے اور بھارت کو کھٹمنڈو سے بات کرنے کے لئے وقت دینا چاہئے تھا، کیونکہ اس نے نومبر سے ہی اس معاملے پر بات چیت پر اصرار کیا تھا۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ نیپال کے وزیر اعظم نے گھریلو سیاست میں خود کو مضبوط کرنے کے لئے ایک نیا سیاسی داؤ لگایا ہے۔ آئیے جانتے ہیں کہ نیپال اور ہندوستان کے مابین تعلقات کیوں بدل رہے ہیں۔

Nepal is changing because of domestic politics, find out what experts say
گھریلو سیاست کی وجہ سے نیپال بدل رہا ہے، جانئے ماہرین کیا کہتے ہیں

امور خارجہ کے ماہرین کا خیال ہے کہ نیپالی گھریلو سیاست میں ہنگامہ آرائی، اس کی بڑھتی ہوئی امنگوں، چین کی طرف سے مضبوط معاشی تعاون کی وجہ سے بڑھتی ہوئی کشمکش اور اس پڑوسی ملک کے ساتھ مذاکرات میں بھارت کی نرمی کی وجہ سے نیپال نے دونوں ممالک کے مابین کئی دہائیوں پرانے سرحدی تنازع کو نئے مقام پر پہنچا دیا ہے۔

نیپال کی کمیونسٹ حکومت لیپولیخ، کالاپانی اور لمپیادھورا کو نیپالی سرزمین دکھاتے ہوئے ایک نئے نقشے کے سلسلے میں ملکی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں سے اتفاق رائے حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ اس پر بھارت کو کہنا پڑا کہ اس طرح کے مصنوعی شعبے میں توسیع کا دعویٰ قابل قبول نہیں ہے۔

نیپالی پارلیمنٹ میں اس پر ووٹ ڈلوانا، دونوں ممالک کے مابین سات دہائی قدیم ثقافتی، سیاسی اور تجارتی تعلقات کو مد نظر نہیں رکھتا ہے۔ یہ علاقائی سپر پاور بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لئے نیپال کی تیاری کی عکاسی کرتا ہے اور اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسے دونوں ممالک کے درمیان پرانے تعلقات کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔

راکیش سود جو سن 2008 اور 2011 کے درمیان نیپال میں بھارت کے سفیر رہے تھے، نے کہا کہ دونوں فریقوں نے تعلقات کو ایک 'انتہائی خطرناک نقطہ' پر پہنچا دیا ہے اور بھارت کو کھٹمنڈو سے بات کرنے کے لئے وقت دینا چاہئے تھا کیوں کہ وہ نومبر سے اس مسئلے پر بات چیت کے لئے اصرار کر رہا تھا۔

انہوں نے کہا 'مجھے لگتا ہے کہ ہم نے حساسیت کا فقدان ظاہر کیا ہے اور اب نیپالی خود کو (ہم سے) اتنی دور لے جائیں گے جہاں سے انہیں (مذاکرات کی میز پر) واپس لانا مشکل ہوگا'۔

نیپال بھارت کی پانچ ریاستوں سکم، مغربی بنگال، بہار، اتر پردیش اور اتراکھنڈ کے ساتھ 1850 کلومیٹر طویل سرحد سے لگا ہے۔ دونوں ممالک دوستی کے انوکھے تعلقات کے مطابق لوگوں کی آزادانہ نقل و حرکت کی ایک طویل روایت رکھتے ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں تقریبا 80 لاکھ نیپالی شہری رہتے ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین مضبوط دفاعی تعلقات ہیں۔ بھارت نیپال کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ نیپال سے لگ بھگ 32000 گورکھا فوجی ہندوستانی فوج میں شامل ہیں۔

نیپال میں 2013 سے 2017 تک ہندوستان کے سفیر رنجیت رائے نے کہا کہ وزیر اعظم اولی نے صرف گھریلو سیاست میں اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لئے نئے نقشے پر قدم رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اولی اپنے قدم سے آگے بڑھ چکے ہیں۔

انہوں نے کہا 'بھارت مخالف جذبات بھڑکانے سے انہیں الیکشن جیتنے میں مدد ملی ہے اور انہیں لگتا ہے کہ اب اس اقدام سے ان کی دوبارہ مدد ہوگی کیونکہ گھریلو سیاست پر ان کا بہت دباؤ ہے'۔

انہوں نے کہا 'میرے خیال میں اس کا تعلق گھریلو سیاست میں اولی کے اندر عدم تحفظ کے احساس اور نیپال کی سیاست میں ان کے مقام کے کمزور ہونے سے ہے۔ اقتصادی محاذ پر حکومت کی ناکامی پر نیپال میں بہت سارے مظاہرے ہوئے ہیں۔ نیپالی کمیونسٹ پارٹی میں یہ افواہ ہے کہ قیادت بدل سکتی ہے۔ میرے خیال میں یہ اولی کے لیے سنجیونی ہے۔

نیپال کے خلاف 2015 کی مبینہ معاشی ناکہ بندی کے بعد سے چین کے ساتھ بھارت کے تعلقات میں کافی تناؤ پیدا ہوا ہے۔ تب سے چین نے نیپال میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے جس نے اس زمینی ملک سے پیٹرولیم اور نقل و حمل سمیت دیگر مصنوعات کے لئے ایک نئی سڑک بنانے میں مدد کی ہے۔

چین نے تبت میں کٹھمنڈو کو شیگسٹ سے جوڑنے کے لئے ایک بلند نظر ریلوے کا منصوبہ بھی بنایا ہے۔ وہاں یہ لہاسا کے موجودہ ریل روٹ سے منسلک ہوگا۔ چین نے نیپال میں سامان کی ترسیل کے لئے چار بندرگاہوں کی پیش کش بھی کی ہے۔ نیپال کو سمندر کے ذریعہ لایا جانے والا سامان ہندوستان کے بھروسہ رہنا پڑا تھا۔

اسٹریٹجک امور کے ماہر پروفیسر ایس ڈی منی نے کہا کہ نیپال کی تازہ ترین سرگرمی کا ایک بہت بڑا پیغام یہ ہے کہ نیپالی اپنے آپ کو پر اعتماد اور مضبوط ظاہر کررہے ہیں اور خصوصی تعلقات کا پرانا ڈھانچہ مکمل طور پرختم ہوگیا ہے۔

انہوں نے کہا 'ان لوگوں کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ آپ کو نیپال کے ساتھ کچھ اور ہی حساسیت اور تھوڑی زیادہ تدبیر اور افہام و تفہیم سے مختلف طریقے سے نمٹنا ہوگا۔ یہ نیا نیپال ہے۔ نیپال کے 65 فیصد لوگ جوان ہیں۔ انہیں ماضی کی پرواہ نہیں ہے۔ ان کی اپنی خواہشات ہیں۔ جب تک بھارت ان کی خواہشات کے مطابق نہیں ہے ہوگا ان کو کوئی پرواہ نہیں ہوگی۔

سود نے کہا 'چین کے ساتھ ہمارا تنازعہ خطے سے متعلق ہے۔ دونوں قوتیں وہاں سے دستبرداری کے بارے میں بات چیت میں ہیں۔ ہمارا پاکستان سے خطے پر تنازعہ ہے دونوں فوجیں آمنے سامنے ہیں اور لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔

انہوں نے پوچھا 'کیا اسی طریقے سے ہم اسے تنازعہ کی شکل دے کر نیپال کے ساتھ اپنی سرحد دیکھنا چاہتے ہیں، جب کہ برطانوی حکمرانی کے وقت سے اس پڑوسی ملک کے لوگوں کی آزادانہ نقل و حرکت کے لئے ایک کھلی سرحد موجود ہے اور جو 1947 میں تھا اس کے بعد بھی ہے۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا نیا نیپال کے اس اقدام کے پیچھے چین کھڑا ہے، سود نے کہا کہ وہ نہیں سوچتے کہ کھٹمنڈو نے چین کے کہنے پر یہ مسئلہ اٹھایا ہے۔ تاہم اس سے اتفاق ہے کہ حالیہ برسوں میں نیپال میں چینی اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا ہے۔

جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں پروفیسر مونی نے یہ بھی کہا کہ بھارت کی 'ہمسایہ پہلے کی پالیسی' پٹری سے اتر گئی ہے ،کیونکہ اس کے نفاذ کو 'من مانی' سے کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

اس دوران جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا نیپال کی طرف سے کی جانے والی بات چیت کی اپیل کا جواب نہ دے کر بھارت نے غلطی کی ہے تو پروفیسر مونی نے کہا 'بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں بھارت نے چھوٹے پڑوسی ممالک کے ساتھ معاملات میں نرمی اور انتہائی اعتماد ظاہر کیا ہے۔ نیپال بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔

تاہم پروفیسر سود نے کہا کہ نئی دہلی کو پڑوسی ملک سے بات کرنے کے لئے وقت نکالنا چاہئے تھا۔

انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا 'ہم ہر روز (اخبارات) پڑھتے ہیں کہ وزیر اعظم ویڈیو کانفرنس کے ذریعے اپنے 50 ہم منصبوں سے مل رہے ہیں، ہمارے وزیر خارجہ نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے اپنے 70 ہم منصبوں سے ملاقات کی ہے۔ یقینی طور پر کسی مرحلے پر نیپالی عہدیداروں یا دوسرے وزیر خارجہ، سکریٹری خارجہ یا وزیر اعظم کی سطح پر ملاقات ممکن رہی ہوگی۔

سود نے کہا 'ہم کہتے رہے ہیں کہ نیپال کے ساتھ ہماری تاریخی، ثقافتی، لسانی اور مذہبی وابستگی ہے۔ پھر ہم کیوں اتنے بے حس ہیں کہ ہم ان سے پانچ چھ ماہ بات کرنے میں وقت نہیں نکال سکے۔ اس نے نومبر میں یہ مسئلہ اٹھایا تھا اور اس وقت کووڈ 19 کا بحران نہیں تھا۔

رائے نے کہا کہ نیپال کے آئین میں ترمیم کرنے کے فیصلے سے معاملہ مزید پیچیدہ ہوجائے گا۔

انہوں نے کہا 'میرے خیال میں یہ تعلقات بہتر بنانے کی بجائے مزید الجھا ہوا ہے۔ اس سے یہ معاملہ مذاکرات کے دائرہ سے باہر ہوجائے گا۔

رائے نے کہا 'لیکن ہم نے کہا کہ ہم کورونا وائرس کے بحران کے خاتمے کے بعد بات کریں گے۔ لہذا آئینی ترمیم کے لئے آگے بڑھنے کی کوئی فوری ضرورت نہیں تھی۔ یہ مسئلہ 1997 سے زیر التواء ہے، لہذا مزید کچھ مہینوں میں کوئی بڑا فرق نہیں آجاتا۔

امور خارجہ کے ماہرین کا خیال ہے کہ نیپالی گھریلو سیاست میں ہنگامہ آرائی، اس کی بڑھتی ہوئی امنگوں، چین کی طرف سے مضبوط معاشی تعاون کی وجہ سے بڑھتی ہوئی کشمکش اور اس پڑوسی ملک کے ساتھ مذاکرات میں بھارت کی نرمی کی وجہ سے نیپال نے دونوں ممالک کے مابین کئی دہائیوں پرانے سرحدی تنازع کو نئے مقام پر پہنچا دیا ہے۔

نیپال کی کمیونسٹ حکومت لیپولیخ، کالاپانی اور لمپیادھورا کو نیپالی سرزمین دکھاتے ہوئے ایک نئے نقشے کے سلسلے میں ملکی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں سے اتفاق رائے حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ اس پر بھارت کو کہنا پڑا کہ اس طرح کے مصنوعی شعبے میں توسیع کا دعویٰ قابل قبول نہیں ہے۔

نیپالی پارلیمنٹ میں اس پر ووٹ ڈلوانا، دونوں ممالک کے مابین سات دہائی قدیم ثقافتی، سیاسی اور تجارتی تعلقات کو مد نظر نہیں رکھتا ہے۔ یہ علاقائی سپر پاور بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لئے نیپال کی تیاری کی عکاسی کرتا ہے اور اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسے دونوں ممالک کے درمیان پرانے تعلقات کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔

راکیش سود جو سن 2008 اور 2011 کے درمیان نیپال میں بھارت کے سفیر رہے تھے، نے کہا کہ دونوں فریقوں نے تعلقات کو ایک 'انتہائی خطرناک نقطہ' پر پہنچا دیا ہے اور بھارت کو کھٹمنڈو سے بات کرنے کے لئے وقت دینا چاہئے تھا کیوں کہ وہ نومبر سے اس مسئلے پر بات چیت کے لئے اصرار کر رہا تھا۔

انہوں نے کہا 'مجھے لگتا ہے کہ ہم نے حساسیت کا فقدان ظاہر کیا ہے اور اب نیپالی خود کو (ہم سے) اتنی دور لے جائیں گے جہاں سے انہیں (مذاکرات کی میز پر) واپس لانا مشکل ہوگا'۔

نیپال بھارت کی پانچ ریاستوں سکم، مغربی بنگال، بہار، اتر پردیش اور اتراکھنڈ کے ساتھ 1850 کلومیٹر طویل سرحد سے لگا ہے۔ دونوں ممالک دوستی کے انوکھے تعلقات کے مطابق لوگوں کی آزادانہ نقل و حرکت کی ایک طویل روایت رکھتے ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں تقریبا 80 لاکھ نیپالی شہری رہتے ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین مضبوط دفاعی تعلقات ہیں۔ بھارت نیپال کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ نیپال سے لگ بھگ 32000 گورکھا فوجی ہندوستانی فوج میں شامل ہیں۔

نیپال میں 2013 سے 2017 تک ہندوستان کے سفیر رنجیت رائے نے کہا کہ وزیر اعظم اولی نے صرف گھریلو سیاست میں اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لئے نئے نقشے پر قدم رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اولی اپنے قدم سے آگے بڑھ چکے ہیں۔

انہوں نے کہا 'بھارت مخالف جذبات بھڑکانے سے انہیں الیکشن جیتنے میں مدد ملی ہے اور انہیں لگتا ہے کہ اب اس اقدام سے ان کی دوبارہ مدد ہوگی کیونکہ گھریلو سیاست پر ان کا بہت دباؤ ہے'۔

انہوں نے کہا 'میرے خیال میں اس کا تعلق گھریلو سیاست میں اولی کے اندر عدم تحفظ کے احساس اور نیپال کی سیاست میں ان کے مقام کے کمزور ہونے سے ہے۔ اقتصادی محاذ پر حکومت کی ناکامی پر نیپال میں بہت سارے مظاہرے ہوئے ہیں۔ نیپالی کمیونسٹ پارٹی میں یہ افواہ ہے کہ قیادت بدل سکتی ہے۔ میرے خیال میں یہ اولی کے لیے سنجیونی ہے۔

نیپال کے خلاف 2015 کی مبینہ معاشی ناکہ بندی کے بعد سے چین کے ساتھ بھارت کے تعلقات میں کافی تناؤ پیدا ہوا ہے۔ تب سے چین نے نیپال میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے جس نے اس زمینی ملک سے پیٹرولیم اور نقل و حمل سمیت دیگر مصنوعات کے لئے ایک نئی سڑک بنانے میں مدد کی ہے۔

چین نے تبت میں کٹھمنڈو کو شیگسٹ سے جوڑنے کے لئے ایک بلند نظر ریلوے کا منصوبہ بھی بنایا ہے۔ وہاں یہ لہاسا کے موجودہ ریل روٹ سے منسلک ہوگا۔ چین نے نیپال میں سامان کی ترسیل کے لئے چار بندرگاہوں کی پیش کش بھی کی ہے۔ نیپال کو سمندر کے ذریعہ لایا جانے والا سامان ہندوستان کے بھروسہ رہنا پڑا تھا۔

اسٹریٹجک امور کے ماہر پروفیسر ایس ڈی منی نے کہا کہ نیپال کی تازہ ترین سرگرمی کا ایک بہت بڑا پیغام یہ ہے کہ نیپالی اپنے آپ کو پر اعتماد اور مضبوط ظاہر کررہے ہیں اور خصوصی تعلقات کا پرانا ڈھانچہ مکمل طور پرختم ہوگیا ہے۔

انہوں نے کہا 'ان لوگوں کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ آپ کو نیپال کے ساتھ کچھ اور ہی حساسیت اور تھوڑی زیادہ تدبیر اور افہام و تفہیم سے مختلف طریقے سے نمٹنا ہوگا۔ یہ نیا نیپال ہے۔ نیپال کے 65 فیصد لوگ جوان ہیں۔ انہیں ماضی کی پرواہ نہیں ہے۔ ان کی اپنی خواہشات ہیں۔ جب تک بھارت ان کی خواہشات کے مطابق نہیں ہے ہوگا ان کو کوئی پرواہ نہیں ہوگی۔

سود نے کہا 'چین کے ساتھ ہمارا تنازعہ خطے سے متعلق ہے۔ دونوں قوتیں وہاں سے دستبرداری کے بارے میں بات چیت میں ہیں۔ ہمارا پاکستان سے خطے پر تنازعہ ہے دونوں فوجیں آمنے سامنے ہیں اور لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔

انہوں نے پوچھا 'کیا اسی طریقے سے ہم اسے تنازعہ کی شکل دے کر نیپال کے ساتھ اپنی سرحد دیکھنا چاہتے ہیں، جب کہ برطانوی حکمرانی کے وقت سے اس پڑوسی ملک کے لوگوں کی آزادانہ نقل و حرکت کے لئے ایک کھلی سرحد موجود ہے اور جو 1947 میں تھا اس کے بعد بھی ہے۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا نیا نیپال کے اس اقدام کے پیچھے چین کھڑا ہے، سود نے کہا کہ وہ نہیں سوچتے کہ کھٹمنڈو نے چین کے کہنے پر یہ مسئلہ اٹھایا ہے۔ تاہم اس سے اتفاق ہے کہ حالیہ برسوں میں نیپال میں چینی اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا ہے۔

جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں پروفیسر مونی نے یہ بھی کہا کہ بھارت کی 'ہمسایہ پہلے کی پالیسی' پٹری سے اتر گئی ہے ،کیونکہ اس کے نفاذ کو 'من مانی' سے کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

اس دوران جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا نیپال کی طرف سے کی جانے والی بات چیت کی اپیل کا جواب نہ دے کر بھارت نے غلطی کی ہے تو پروفیسر مونی نے کہا 'بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں بھارت نے چھوٹے پڑوسی ممالک کے ساتھ معاملات میں نرمی اور انتہائی اعتماد ظاہر کیا ہے۔ نیپال بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔

تاہم پروفیسر سود نے کہا کہ نئی دہلی کو پڑوسی ملک سے بات کرنے کے لئے وقت نکالنا چاہئے تھا۔

انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا 'ہم ہر روز (اخبارات) پڑھتے ہیں کہ وزیر اعظم ویڈیو کانفرنس کے ذریعے اپنے 50 ہم منصبوں سے مل رہے ہیں، ہمارے وزیر خارجہ نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے اپنے 70 ہم منصبوں سے ملاقات کی ہے۔ یقینی طور پر کسی مرحلے پر نیپالی عہدیداروں یا دوسرے وزیر خارجہ، سکریٹری خارجہ یا وزیر اعظم کی سطح پر ملاقات ممکن رہی ہوگی۔

سود نے کہا 'ہم کہتے رہے ہیں کہ نیپال کے ساتھ ہماری تاریخی، ثقافتی، لسانی اور مذہبی وابستگی ہے۔ پھر ہم کیوں اتنے بے حس ہیں کہ ہم ان سے پانچ چھ ماہ بات کرنے میں وقت نہیں نکال سکے۔ اس نے نومبر میں یہ مسئلہ اٹھایا تھا اور اس وقت کووڈ 19 کا بحران نہیں تھا۔

رائے نے کہا کہ نیپال کے آئین میں ترمیم کرنے کے فیصلے سے معاملہ مزید پیچیدہ ہوجائے گا۔

انہوں نے کہا 'میرے خیال میں یہ تعلقات بہتر بنانے کی بجائے مزید الجھا ہوا ہے۔ اس سے یہ معاملہ مذاکرات کے دائرہ سے باہر ہوجائے گا۔

رائے نے کہا 'لیکن ہم نے کہا کہ ہم کورونا وائرس کے بحران کے خاتمے کے بعد بات کریں گے۔ لہذا آئینی ترمیم کے لئے آگے بڑھنے کی کوئی فوری ضرورت نہیں تھی۔ یہ مسئلہ 1997 سے زیر التواء ہے، لہذا مزید کچھ مہینوں میں کوئی بڑا فرق نہیں آجاتا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.