ڈاکٹر نیلو جین نے بتایا کہ ملک و بیرون ملک سے سینکڑوں کے تعداد میں حیوانات اور پرندوں پر کام کرنے والے دانشوران نے اپنا تحقیقی مقالہ پیش کیا۔
انہوں نے کہا کہ جس طریقے سے انسان مصنوعی گھڑی کے ذریعے وقت کا اندازہ لگاتا ہے، اسی طرح سے حیوان اور پرندے کو بھی قدرتی گھڑی ہوتی ہے جس کے ذریعے وہ اپنی روزمرہ کے معمولات کو انجام دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جس طریقے سے ہم لوگ کھانا کھاتے ہیں تو ایک ہی وقت پر روزانہ بھوک کا احساس ہوتا ہے، اسی طرح پرندوں میں بھی یہ قدرتی گھڑی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے متعینہ اوقات میں نظر آتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بیرون ملک سے آئے سائنسدانوں نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ موجودہ دور میں جس طریقے سے درختوں کی کٹائی کا سلسلہ جاری ہے اس سے پرندوں اور حیوانوں کو بہت سخت مشکلات کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ درختوں کے کٹائی سے خاص طور سے بندروں کی نسلوں خطرہ درپیش۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بھارت میں کئی دیگر ممالک سے پرندے ہجرت کرکے آتے ہیں، لیکن سازگار ماحول نہ ہونے کی کی وجہ ان کی موت ہوجاتی ہے۔
ڈاکٹر نیلو جین نے کہا بھارتی حکومت کو دیگر ممالک سے آنے والے پرندوں کے وقت کا تعین کرکے ان کے لیے سازگار ماحول بنانا چاہیے جس سے نئے نئے پرندوں کے آمدورفت کا سلسلہ جاری رہے۔
انھوں نے میرٹھ سے منسلک سردھنہ علاقے میں دیگر ممالک سے آنے والے پرندوں کے بارے میں بھی بتایا کہ محکمہ جنگلات اور یونیورسٹی کے طلباء کے ذریعے مشترکہ کوشش کی جارہی ہے کہ ان پر تحقیقات کی جائے کہ وہ کس نوعیت کے پرندے ہیں کب آتے ہیں اور انہیں کس طرح کا ماحول درکار ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بھارت میں مرنے والے پرندوں اور حیوانات کے بارے میں لوگوں کو متعارف کرانا ضروری ہے، تاکہ جس طریقے سے انسانی جان کے تلف ہونے پر لوگ آواز اٹھاتے ہیں اسی طرح حیوانات اور پرندوں کی جانیں تلف پر لوگوں کو آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔