آر ایس ایس کے رہنماؤں اور مسلم قیادت کے درمیان ملاقات کے سلسلوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پولیٹیکل کونسل کے سربراہ ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے کہا کہ 'اپنے آرام دہ کمروں میں بیٹھ کر بابری کی حوالگی کی بات کرنے والے مسلم رہنما تو نہیں ہو سکتے۔ وہ تو زندگی بھر سرکار کی نوکری کی اور اب سبکدوش ہو کر قائد بن بیٹھے ہیں، جو مسلم طبقہ کے مشکل دور میں کبھی نظر نہیں آئے، انہیں ہم لیڈر مان لیں گے، اس قسم کے مشورے وہ کس بنیاد پر دے ہے ہیں؟ وہ نہ شریعت کو جانتے ہیں اور نہ دین کو اور ایسے مشورے دیر ہے ہیں'۔
ڈاکٹر رحمانی نے مزید کہا کہ فیصلہ آنے دیجئے ، اس کے بعد دیکھا جائے گا کہ کیا حکمت عملی اپنائی جائے؟
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا مسلمان لیڈروں کو چاہئے تھا کہ وہ موہن بھاگوت سے کہیں کہ وہ اپنے لیڈروں کو نفرت انگیز بیانات سے روکیں، کیونکہ اگر کسی نے فساد برپا کیا ہے تو وہ آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں ہیں۔ دنیا میں اگر کسی کو امن کی اپیل کرنی ہے تو آر ایس ایس اور اس کے چیف سے کرنی چاہئے۔
دراصل چند روز قبل مسلم دانشوروں اور آر ایس ایس کے رہنماوں کے درمیان میٹنگ ہوئی تھی، میٹنگ کے بعد مسلم دانشوروں نے کہا تھا کہ اگر ایودھیا کیس کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں آتا ہے تو بھی بابری مسجد کی زمین کو ہندو فریق کے حوالے کر دینا چاہیے۔
ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے کہا کہ جب مولانا ارشد مدنی موہن بھاگوت سے ملے تھے، اس وقت انھیں موہن بھاگوت سے امن کی اپیل کرنی چاہیے۔