زعفرانی رنگ ہندو راہبوں کی شناخت کا رنگ ہے تو اِس کا ہلکا رنگ یعنی پیلا رنگ کئ صدیوں سے بسنت کی خاص پہچان ہے۔ حالانکہ اس حقیقت کے سوائے کہ اس دور میں زعفرانی رنگ کے سماجی اور مذہبی کم بلکہ سیاسی معنی زیادہ ہیں اور اس رنگ کا بخوبی استعمال ہو رہا ہے۔
اگر سیاسی رنگ کی رنگت سے علیحدہ کرکے دیکھیں تو یہ رنگ مخلوط تہذیب کی ایک ہی شکل ہے۔ یہ رنگ مذہب کے بجائے ثقافت اور طرز زندگی کا ہی ایک رنگ ہے۔
بھارت میں صوفیوں نے اس رنگ کو معمولی تبدیلیوں کے ساتھ تسلیم کیا۔ وہ ان کے لئے 'سندلی' بن گیا۔ حضرت ابوالحسن خواجہ امیر خسرو، بلہ شاہ اور تمام صوفی سنتوں کے کلام میں رنگ دینے کے بارے میں بہت زیادہ تذکرہ ملتا ہے۔

نُصرت کی مشہور قوّالی 'حسنِ جاناں کی تعریف ممکن نہیں' میں سندلی سندلی کرکے مصرعہ استعمال کیا گیا ہے۔ اسی طرح موسم بہار یعنی بسنت پنچمی کے موقع پر ہر برس حضرت نظام الدین اولیا کی درگاہ پر جلسہ ہوتا ہے۔ کثیر تعداد میں زائرین اور عقیدت مند جمع ہوتے ہیں اور جھوم جھومکر ناچتے ہیں۔ پیلے رنگ کا لباس پہنتے ہیں اور پیلے رنگ کے پھول لیکر آتے ہیں۔

بریلی میں واقع خانقاہ عالیہ نیازیہ بھی صوفی سلسلہ کی عالمی شہرت یافتہ خانقاہ ہے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری سلسلہ کی اس خانقاہ پر تمام مذاہب کے عقیدت مند حاضری دیتے ہیں۔
خاص بات یہ ہے کہ مختلف مذہب و برادری سے تعلق رکھنے والے زائرین ایک ہی قطار میں لگکر اپنے باری کا انتظار کرتے ہیں۔ حالانکہ یہاں بسنت پنچمی کے موقع پر کوئ خصوصی تقریب کا انعقاد تو نہیں ہوتا ہے، لیکن اس دن کثیر تعداد میں زائرین خانقاہ کے احاطے میں جمع ہوتے ہیں۔ یہ روایت رنگوں کو کسی مذہب سے منسلک کرنے کے مفروضہ کو توڑنے کی سب سے خوبصورت مثال ہے۔