ایرانی پاسداران انقلاب کے سپریم قاسم سلیمانی نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ انھیں ہلاک کیا جاسکتا ہے - ایرانی حکومت کے لیے گزشتہ 22 برس قبل سے متحرک انقلابی القدس فورس کے کمانڈر بننے کے بعد سے لے کر اب تک کا یہ سب سے بڑا واقعہ کہا جا سکتا ہے۔
سنہ 2020 کے شروع ہوتے ہی تین جنوری، جمعہ کی صبح کے اوائل میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ذرائع نے کہا کہ میزائل حملے سے 62 سالہ جنرل قاسم سلیمانی کا قتل کیا گیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ 'جنگ کو روکنے والے قدم خود جنگ نہیں ہوتا'۔
انیس برس قبل امریکی فوج کا عراق کے طول و عرض میں قبضے کے بعد یہ دوسرا امریکی حملہ ہے، جس کا عالمی منظر نامے پر اثر پڑرہا ہے۔
اگرچہ سلیمانی کے اس قتل کی اصل وجہ معلوم کرنے میں ابھی کچھ وقت لگے گا، لیکن جو بات ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ اس قتل سے دو طرفہ اور اقتصادی تعلقات کو نقصان پہنچے گا جو ایران نے متعدد ممالک کے ساتھ عہد لیا ہے۔ بھارت بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔
بھارت کے سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی طور پر ایران سے کافی پرانے تعلقات ہیں، دونوں ممالک خطے میں اپنی حیثیت سے ترقی کی سمت گامزن ہیں۔
بلوچستان (پاکستان) کے ساحلی علاقہ مکران اور ایرانی سرحدی علاقہ چابہار کی ترقی کے لئے خاطر خواہ فنڈز کی سرمایہ کاری کی کوشش جاری ہے۔ اس کشیدگی کے دوران یہ بات بہت اہم ہوگی کہ اس قتل کا کیسے جواب دیا جائے گا۔
ایران نے چابہار میں بحری بندرگاہ کے لئے 10 سالہ مینجمنٹ لیز دینے کے لئے اپنا راستہ چھوڑ دیا ہے۔ اس کے علاوہ چین نے سرحدی پاکستان کے گوادر بندرگاہ میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کرچکے ہیں ، وہ بھی چابہار کی تعمیر کے خواہشمند تھا، لیکن ایران اور بھارت سے مضبوظ تعلقات اس کی اپنی تزویراتی وجوہات تھیں۔
عمان کی سرحد سے بہہ رہے سمندر میں واقع ایرانی بندرگاہ پر بھارت کی پہلی بیرون ملک سرمایہ کاری ہے ، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں سے اچھے تعلقات بنائے رکھے اور وسطی ایشیا کے ساتھ سفری آسانی کے لیے تعمیر نو میں مدد فراہم کرے۔
چابہار پروجیکٹ کے تین اجزاء ہیں، بندرگاہ، روڈ اور ریل نیٹ ورک جو بحری راستوں کو ایران اور افغانستان کے شہروں سے جوڑتا ہے۔
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی، ایرانی صدر حسن روحانی اور افغان صدر اشرف غنی نے سن 2016 میں کئی معاہدوں پر دستخط کیے تھے۔ ان معاہدوں کی بنیاد اس سمجھوتے پر کی گئی تھی کہ فائف پی + ون یعنی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان چین، فرانس، روس، برطانیہ اور ریاستہائے متحدہ بھی ان ممالک سے اچھے تعلقات برقرار رکھے۔
فائف پی + ون ممالک نے ایران کے جوہری معاہدہ کو بین الاقوامی سطح پر واپس لینے کو کہا تھا تاکہ وہ بین الاقوامی سطح تک رسائی حاصل کرسکے۔
ان سب کے باوجود بھارت کے دوسرے ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات اور تجارت کو آسان بنانے کے لئے بینکنگ چینلز کا حل بھی اہم معاملہ ہے۔
اس مفروضے کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے اور ایران کا معاہدے سے دستبردار ہونے اور ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کرنے کے بعد چیلنج کیا گیا تھا۔ پابندیوں کی واپسی اور بینکوں کے ایران سے لین دین سے انکار سے بھارت پر معاشی بندیشیں بھی عائد رہی، کیونکہ ایران مطلوبہ رفتار سے بندرگاہ اور ریلوے نیٹ ورک نہیں بناسکا۔
لیکن چند ہی مہینوں کے بعد اس منصوبے سے متعلق بھارت کی پریشانی ختم نہیں ہوئی۔ واشنگٹن میں 2 + 2 کے اجلاس کے دوران وزیر خارجہ ایس جئے شنکر نے تحریری طور پر کچھ وعدوں کو مکمل کرانے میں کامیابی حاصل کی، جس کی وجہ سے بھارت کو 85 ملین ڈالر مالیت کے کچھ سازوسامان خریدنے کا موقع ملا۔ بھارت نے چابہار کے ساتھ تجارت کے حجم کو بہتر بنانے کے لئے مزید بندرگاہوں میں سرمایہ کاری کا بھی وعدہ کیا۔
جمعہ کی صبح جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قاسم سلیمانی کے قتل کا اقرار کیا تو ہر معاہدہ اور تعلقات سنگین سوال کے زیربحث آگئے۔ کوئی نہیں جانتا ہے کہ ایران اپنے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے ملک کے نڈر اور قیمتی کمانڈر کے نقصان کا بدلہ لینے کا وعدہ کیا تھا۔
جنرل سلیمانی ایک مقبول آدمی تھا، جن کے انسٹاگرام پروفائل میں لاکھوں فالورز رہے ہیں۔ سلیمانی کو عراق، شام اور دیگر علاقوں میں دولت اسلامیہ کی شکست کا سہرا ملا۔
متعدد سیاسی تجزیہ نگاروں کا اتفاق رائے ہے کہ قاسم سلیمانی نے عراق میں امریکہ کے ساتھ دولت اسلامیہ کے خلاف اور افغانستان میں طالبان کے خلاف بھی تعاون کیا۔
بھارتی خفیہ ایجنسیوں میں ماضی قریب تک اسے افغانستان میں مصروف ترین شخص کی حیثیت سے یاد کرتے ہیں اور ان میں سے کچھ نے اس کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔
مزید پڑھیں : 'ایران نے حملہ کیا تو سنگین نتائج بھگتنے ہوں گے'
قاسم سیلمانی ایسے شخص کی حیثیت سے سامنے آیا جو زیادہ بولتا نہیں تھا، لیکن بہت سنتا اور جذب کرتا تھا۔ انہوں نے متعدد بار بھارت کا دورہ کیا تھا۔ اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ وہ دہلی کی کچھ کارروائیوں میں شامل تھے۔ واحد واقعہ جس میں ایرانیوں پر الزام لگایا گیا ہے جو دہلی میں ایک اسرائیلی سفارت کار پر حملے سے متعلق ہے۔ جس کے بعد ایک صحافی کو گرفتار کیا گیا تھا۔
از تحریر : سنجے کپور ( سینئیر صحافی )