ETV Bharat / bharat

پولیس فائرنگ کا شکار ہونے والے افراد تین دہائی سے انصاف سے محروم - ممبئی میں سلمان رشدی کی کتاب ستانیک ورسیس

ممبئی میں سلمان رشدی کی کتاب ستانیک ورسیس کیخلاف مظاہرہ کے دوران اندھادھندپولیس فائرنگ کے شکارافراد اور مہلوکین کے اہل خانہ تین دہائی گزر جانے کے بعد بھی انصاف سے محروم ہیں۔

انصاف سے محروم
انصاف سے محروم
author img

By

Published : Feb 23, 2020, 11:36 PM IST

Updated : Mar 2, 2020, 8:42 AM IST

واضح رہے کہ بھارت نژاد برطانوی مصنف سلمان رشدی کی کتاب کے خلاف یہ افراد احتجاج کررہے تھے، جس پر اسلام اور پیغمبر اسلام کی ہتک کا الزام لگایا گیا اور ایران کے آیت اللہ خمینی نے اس کے خلاف موت کا فتویٰ جاری کیا تھا۔

اس کتاب کے خلاف ممبئی کی ایک تنظیم نے بروز جمعہ 24 فروری سنہ 1989کو بعد نماز جمعہ جلوس نکالنے اور برطانوی ہائی کمیشن پر مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا تھا، جمعہ کی دوپہر جنوبی ممبئی کے مسلم اکثریتی علاقے مستان تالاب سے نکالے گئے اس جلوس کے شرکاءپ ر بھنڈی بازار اور کرافورڈ مارکیٹ کے درمیان واقع شاہراہ محمد علی روڈ پر ممبئی پولیس کے ایک اعلیٰ افسر شنگارے کے حکم پر پولیس اہلکاروں نے بلا اشتعال فائرنگ کردی اور فائرنگ کے نتیجہ میں ایک کمسن بچے سمیت 12افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

ان افراد کو ممبئی اور مہاراشٹر کے مسلمانوں نے فراموش کردیا ہے۔ اگر اس موقع پر مرحوم مولانا عبدالقدوس کشمیری مشتعل نوجوانوں اور پولیس اہلکاروں کے درمیان سینہ سپرنہ ہوتے تو مرنے والوں کی تعداد کافی زیادہ ہوتی تھی۔

اس موقع پر ممبئی کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے صحافی جاوید جمال الدین نے کہا کہ وہ ایک مقامی اردو اخبار میں ٹرینی رپورٹر تھے اور انہوں نے محسوس کیا کہ اس موقع پر مسلمانوں کو دوحصوں میں تقسیم کرنے میں ارباب اقتدار کامیاب ہوگئے تھے اور یہی سبب تھا کہ پولیس نے احتجاج کی منظوری نہیں دی، لیکن نماز جمعہ کے بعد مسلم نوجوان اعلان کے تحت مستان تالاب کے صدر دروازہ پر جمع ہونے لگے تھے۔

لیکن ایڈیشنل کمشنر وی شنگارے نے آہنی دروازہ بند کرادیا ۔بتایا جاتا ہے کہ اس کے بعد مشتعل نوجوان جلوس کی شکل میں برطانوی ہائی کمیشن پر واقع فلورا فاوئنٹن روانہ ہونے لگے اور انہیں پولیس نے محمد علی روڈ پر کرافورڈ مارکیٹ کے نزد گھیر لیا اور چند منٹ میں آنسوگیس کے گولے داغنے کے بعد اندھا دھند فائرنگ شروع کردی جس کے نتیجے میں 12مظاہرین جاں بحق ہوگئے۔

اس سلسلہ میں ایک اور صحافی اور سماجی کارکن سمیع قریشی کا خیال ہے کہ منصوبہ بندی کے فقدان کے پیش نظریہ واقعہ پیش آیا ،ایک مقامی تنظیم اللہ اکبر کے روح رواں انور سادات کو پولیس نے نوٹس دیا اور وہ پولیس کے روبرو حاضر ہوئے جہاں انہیں حراست میں لے لیا گیا، جس کے نتیجے میں مظاہرین کی قیادت میں کوئی نظرنہیں آیا، ایسے لیڈروں کو سماج میں پنپنے نہیں دینا چاہئیے۔

اس موقع پر علماء کونسل کے سنیئر رکن مولانا عبدالقدوس کشمیری نے حالات کا جائزہ لے کر نوجوانوں کو روکنے کی کوشش کی ،لیکن پولیس نے اس سے پہلے گولیاں برسانا شروع کردی اور متعدد افراد جاں بحق اور زخمی ہوئے۔ انہیں معاوضہ بھی نہیں دیا گیا جبکہ کئی صرف تماش بین بتائے گئے تھے۔

مذکورہ واقعہ کے بعد پولیس فائرنگ کی شدید مذمت کی گئی لیکن اعلیٰ پولیس افسرشنگارے نے ان مظاہرین کو لٹیرے قرار دیا اور مبینہ طور پر بیان دیا کہ اقلیتی فرقہ کی کمر پولیس فائرنگ سے توڑ دی گئی اور کئی دہائیوں تک ان میں جلوس نکالنے کی طاقت نہیں ہوگی۔

حکومت نے انہیں ترقی سے نوازا اور تھانے ،ممبئی کے کمشنر کے عہدے پر فائز کیا، لیکن اسلام کی ہتک پر اپنا احتجاج کرنے والوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔آج بھی سی اے اے اور این آرسی وغیرہ کے خلاف احتجاج سے بلاوجہ مسلمانوں اور دیگر اقوام کو روکنے کی سازش کی جارہی ہے۔

واضح رہے کہ بھارت نژاد برطانوی مصنف سلمان رشدی کی کتاب کے خلاف یہ افراد احتجاج کررہے تھے، جس پر اسلام اور پیغمبر اسلام کی ہتک کا الزام لگایا گیا اور ایران کے آیت اللہ خمینی نے اس کے خلاف موت کا فتویٰ جاری کیا تھا۔

اس کتاب کے خلاف ممبئی کی ایک تنظیم نے بروز جمعہ 24 فروری سنہ 1989کو بعد نماز جمعہ جلوس نکالنے اور برطانوی ہائی کمیشن پر مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا تھا، جمعہ کی دوپہر جنوبی ممبئی کے مسلم اکثریتی علاقے مستان تالاب سے نکالے گئے اس جلوس کے شرکاءپ ر بھنڈی بازار اور کرافورڈ مارکیٹ کے درمیان واقع شاہراہ محمد علی روڈ پر ممبئی پولیس کے ایک اعلیٰ افسر شنگارے کے حکم پر پولیس اہلکاروں نے بلا اشتعال فائرنگ کردی اور فائرنگ کے نتیجہ میں ایک کمسن بچے سمیت 12افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

ان افراد کو ممبئی اور مہاراشٹر کے مسلمانوں نے فراموش کردیا ہے۔ اگر اس موقع پر مرحوم مولانا عبدالقدوس کشمیری مشتعل نوجوانوں اور پولیس اہلکاروں کے درمیان سینہ سپرنہ ہوتے تو مرنے والوں کی تعداد کافی زیادہ ہوتی تھی۔

اس موقع پر ممبئی کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے صحافی جاوید جمال الدین نے کہا کہ وہ ایک مقامی اردو اخبار میں ٹرینی رپورٹر تھے اور انہوں نے محسوس کیا کہ اس موقع پر مسلمانوں کو دوحصوں میں تقسیم کرنے میں ارباب اقتدار کامیاب ہوگئے تھے اور یہی سبب تھا کہ پولیس نے احتجاج کی منظوری نہیں دی، لیکن نماز جمعہ کے بعد مسلم نوجوان اعلان کے تحت مستان تالاب کے صدر دروازہ پر جمع ہونے لگے تھے۔

لیکن ایڈیشنل کمشنر وی شنگارے نے آہنی دروازہ بند کرادیا ۔بتایا جاتا ہے کہ اس کے بعد مشتعل نوجوان جلوس کی شکل میں برطانوی ہائی کمیشن پر واقع فلورا فاوئنٹن روانہ ہونے لگے اور انہیں پولیس نے محمد علی روڈ پر کرافورڈ مارکیٹ کے نزد گھیر لیا اور چند منٹ میں آنسوگیس کے گولے داغنے کے بعد اندھا دھند فائرنگ شروع کردی جس کے نتیجے میں 12مظاہرین جاں بحق ہوگئے۔

اس سلسلہ میں ایک اور صحافی اور سماجی کارکن سمیع قریشی کا خیال ہے کہ منصوبہ بندی کے فقدان کے پیش نظریہ واقعہ پیش آیا ،ایک مقامی تنظیم اللہ اکبر کے روح رواں انور سادات کو پولیس نے نوٹس دیا اور وہ پولیس کے روبرو حاضر ہوئے جہاں انہیں حراست میں لے لیا گیا، جس کے نتیجے میں مظاہرین کی قیادت میں کوئی نظرنہیں آیا، ایسے لیڈروں کو سماج میں پنپنے نہیں دینا چاہئیے۔

اس موقع پر علماء کونسل کے سنیئر رکن مولانا عبدالقدوس کشمیری نے حالات کا جائزہ لے کر نوجوانوں کو روکنے کی کوشش کی ،لیکن پولیس نے اس سے پہلے گولیاں برسانا شروع کردی اور متعدد افراد جاں بحق اور زخمی ہوئے۔ انہیں معاوضہ بھی نہیں دیا گیا جبکہ کئی صرف تماش بین بتائے گئے تھے۔

مذکورہ واقعہ کے بعد پولیس فائرنگ کی شدید مذمت کی گئی لیکن اعلیٰ پولیس افسرشنگارے نے ان مظاہرین کو لٹیرے قرار دیا اور مبینہ طور پر بیان دیا کہ اقلیتی فرقہ کی کمر پولیس فائرنگ سے توڑ دی گئی اور کئی دہائیوں تک ان میں جلوس نکالنے کی طاقت نہیں ہوگی۔

حکومت نے انہیں ترقی سے نوازا اور تھانے ،ممبئی کے کمشنر کے عہدے پر فائز کیا، لیکن اسلام کی ہتک پر اپنا احتجاج کرنے والوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔آج بھی سی اے اے اور این آرسی وغیرہ کے خلاف احتجاج سے بلاوجہ مسلمانوں اور دیگر اقوام کو روکنے کی سازش کی جارہی ہے۔

Last Updated : Mar 2, 2020, 8:42 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.