مجتبیٰ حسین طنزومزاح کے شہنشاہ تھے۔ان کی یاد میں ہم کوایک عظیم الشان سمینارمنعقدکرنا چاہئے۔
ان کے انتقال پردنیا کے تمام اداروں نے غم کااظہار کیاہے جس کودیکھ کرلگتا ہے کہ ہندوستان ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں محبان اردو کس قدر مجتبیٰ حسین کوچاہتے تھے۔
مجتبیٰ حسین نے شمال سے لے کردکن تک اور سارے ہندوستان پرطنزومزاح کے میدان میں حکومت کی ہے۔ ہندوستان کے مختلف مشہور رسائل نے ان پرخصوصی گوشہ شائع کیاہے۔
ان خیالات کااظہار بزم ظہو رکی جانب سے منعقدہ تعزیتی جلسہ سے ڈاکٹرم ق سلیم نے کیا۔
انہوں نے اردواکیڈیمی تلنگانہ کی جانب سے مجتبیٰ حسین پرقومی زبان کا خصوصی گوشہ نکالنے کے اعلان کاخیرمقدم کیااور اردواکیڈیمی کے ذمہ داروں کا شکریہ ادا کیا۔
ڈاکٹرم ق سلیم نے کہاکہ مجتبیٰ حسین کے نام پرایک انجمن قائم کرتے ہوئے ہرماہ ایک محفل منعقد کی جانی چاہئے جس میں تمام طنزومزاح سے تعلق رکھنے والی شخصیات کوشامل ہونا چاہئے۔
تعزیتی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر نادرالمسدوسی نے کہاکہ صدیوں میں مجتبیٰ حسین جیسی شخصیت پیدا ہوتی ہے۔ اردوادب میں مجتبیٰ حسین کوساری دنیا میں جس طرح پذیرائی ملی وہ بہت ہی کم لوگوں کوحاصل ہوئی ہے۔
انہوں نے کہاکہ آج اچھا لکھنے والوں کی کمی ہے۔ اردو کے پروفیسر س‘ٹیچرس اوراساتذہ پرذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نوجوانوں کی رہبری کرے اوران میں مطالعہ کا شوق پیدا کریں تاکہ وہ آگے چل کرمجتبیٰ حسین جیسانام پیداکرسکیں۔
اساتذہ‘طلبہ میں اخلاقیات اور اچھی فکرپیدا کریں تاکہ وہ معاشرہ میں ہورہی برائیوں اور مظالم پراپنے قلم کے ذریعہ آواز اٹھاسکیں۔
حمید اَلظفرسابق پی آر او اردو اکیڈیمی نے کہاکہ مجتبیٰ حسین کی تحریریں پڑھنے سے حیدرآباد کی تاریخ کا پتہ چلتا ہے۔ وہ ایک عظیم مصورتھے جواپنے قلم کے ذریعہ جودیکھتے اورمحسوس کرتے تھے اس کوبیان کرتے تھے۔
انہوں نے کہاکہ مجتبیٰ حسین نے زندگی کے ابتدائی دنو ں میں بہت ہی تکالیف دیکھی ہیں اورپھربعدمیں ادب سے جڑکروہ زندگی میں کامیاب رہے۔
ڈاکٹرسیدعبدالعزیزسہیل نے کہاکہ مجتبیٰ حسین گلبرگہ میں پیدا ہوئے‘ تعلیم حیدرآباد میں حاصل کی اور دہلی میں ملازمت اختیار کی۔ اس طرح مختلف تہذیبوں اور شخصیات سے جوڑنے سے ان میں کئی صلاحیتیں پیدا ہوئیں جس سے وہ ہندوستان ہی نہیں بلکہ تمام دنیا کے لوگوں سے جڑتے گئے اور ہرایک کواپنے ساتھ شامل کرتے گئے۔
انہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعہ حیدرآبادکواوریہاں کی تہذیب کوساری دنیا میں پہنچادیا۔
مجتبیٰ حسین نے جتنی کتابیں تحریرکیں اس سے زیادہ ان کتابوں پرنئے قلمکاروں نے کتابیں لکھی ہیں۔ وہ شہرت کے پیچھے کبھی نہیں گئے بلکہ شہرت ہمیشہ ان کا پیچھا کرتی رہی۔
طنز و مزاح کے مشہور شاعر منورعلی مختصر نے کہاکہ مجتبیٰ حسین خود بیمار اورتکلیف میں رہتے تھے لیکن ہرکسی کی خیریت دریافت کرتے تھے۔
انہوں نے بہت سے بے کمالوں کوکمال کابنادیا۔ ان کی عظمتوں کا اعتراف ہم کوہمیشہ کرنا چاہئے۔ نکہت آراشاہین نے کہاکہ اردوہال اوردیگر اردو کے اجلاسوں میں لوگ مجتبیٰ حسین کوسننے کے لیے آتے تھے۔ وہ ہربات میں مزاح پیدا کرنے کا فن جانتے تھے۔ بہت ہی ملنسار اور لوگو ں کا دکھ دردسمجھنے والی شخصیت کانام مجتبیٰ حسین تھا۔
محسن خان اسکالر نے کہاکہ آخری ایام تک مجتبیٰ حسین کے ساتھ مجھے رہنے کا موقع ملا۔ مجتبیٰ حسین ہمیشہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ آج ان کے چلے جانے سے ساری اردودنیا میں غم کاماحول ہے۔
محسن خان نے کہاکہ مجتبیٰ حسین اپنے فن کی بدولت اردودنیا میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ جلسہ کا آغاز قاری محمد انیس احمد کی قرأت کلام پاک سے ہوا۔
بزم ظہور کے صدرٖ ظہور ظہیرآبادی نے خیرمقدمی خطاب میں تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا اورکہاکہ مجتبیٰ حسین کوعالمی وبا کورونا کی وجہ سے ہم صحیح خراج پیش کرنے سے قاصر ہیں اس لیے حالت مجبوری اس طرح آن لائن تعزیتی جلسہ منعقدکیاجارہا ہے۔
محسن خان نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔
ڈاکٹرنادرالمسدوسی کی دعا پرتعزیتی جلسہ کا اختتام عمل میں آیا۔
اس آن لائن تعزیتی جلسہ میں مختلف یونیورسٹیوں کے پروفیسرس‘ ادیب‘شاعر‘ڈگری کالجس کے لکچررس‘اسکالرس اور طلبہ کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔