اسی کڑی کے طور پر مختلف سیاسی پارٹیوں اور سماجی کارکنوں کے نمائندوں نے کلکٹریٹ کے احاطہ میں ایک روزہ دھرنا دیا۔
دھرنا پر بیٹھے لوگوں نے مطالبہ کیا کہ یہ قانون ملک کی آئین پر حملہ ہے اور یہ ملک کے بھائی چارہ میں زہر گھولنے والا ہے۔
ان لوگوں نے بہار حکومت سےمطالبہ کیا کہ وہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف بہار اسمبلی میں قرار داد پاس کرائیں جس میں مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا جائے کہ اس قانون کو رد کیا جائے۔
دھرنا میں شامل سماجی کارکن ٹی پی مودی نے کہا کہ دلی میں بد زبانی کی سبھی حدیں پار کرنے کے بعد شکست کھائی بی جے پی کو اب سمجھ میں آجانا چاہئے کہ نفرت کی سیاست کا دور اب ختم ہوچکا ہے۔
بھارت کے لوگ بینر تلے دھرنا دے رہے لوگوں نے کہا کہ یہ قانون صرف مسلمانوں کے خلاف ہی نہیں ہے بلکہ غریب، پچھڑوں، دلتوں اور آدی واسیوں کے خلاف بھی ہے۔
اور حکومت ملک میں منو واد نافذ کرنا چاہتی ہے تاکہ ملک کی قیادت اونچی جاتی کے چند لوگوں کے ہاتھ میں رہے اور باقی لوگوں کو ان کے ووٹوں کے حق سے محروم کر دیا جائے۔ جن ادھیکار پارٹی کے ضلع صدر نوراللہ فوجی نے کہا کہ مودی حکومت اب بیک فُٹ پر ہے اور انہیں احساس ہوگیا ہے کہ عوام کو زیادہ دنوں تک ہندو مسلم میں بانٹ کر سیاست نہیں کی جاسکتی ہے۔
اس دھرنا میں جمعیت علماء ہند بھاگلپور کے صدر مولانا عطاالرحمان قاسمی، مفتی خورشید احم، اشہر اورینوی، سماجی کارکن رام شرن، جھگی جھونپڑی سنگھرش سمیتی کے انیرودھ، رالوسپا لیڈر ہمانشو پٹیل، وغیرہ موجود تھے۔ دھرنا کے بعد بہار کے وزیر اعلی کے نام پیغام کی ایک کاپی ڈی ایم پرنو کمار کو سونپی۔