اترپردیش سے موصول رپورٹس کے مطابق مظاہروں کے دوران مبینہ طور پر پولیس کی گولی سے ہلاک ہونے والے افراد ایک خاص طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں، اس کے علاوہ پولیس کاروائی کے دوران جن گھروں میں توڑ پھوڑ، زدوکوب اور چوری کے شرمناک واردات انجام دیے گئے، سارے متاثرین اترپردیش کے مسلم اکثریتی علاقوں کے باشندے ہیں۔
قومی اقلیتی کمیشن کے مینول کے مطابق بھارت کے کسی بھی خطہ میں اقلیتوں پر زیادتی ہوتی ہے اور اس کی خبریں موصول ہوتی ہیں تو وہ از خود کاروائی کرتے ہوئے متعلقہ ریاستوں سے نہ صرف جواب طلب کرتا ہے بلکہ مداخلت کر کے اس بات کی یقین دہانی بھی کراتا ہے کہ متاثرین کے ساتھ کسی بھی طرح کی ناانصافی نہ ہو۔ بسا اوقات معاملہ بڑا ہونے پر کمیشن اپنے ممبران کی کمیٹی تشکیل دے کر اسے متاثرہ مقامات پر انکوائری کے لیے روانہ کرتا ہے۔
تاہم اترپردیش میں جس طرح کے حالات پیش آئے اس پر قومی اقلیتی کمیشن کی خاموشی حیران کن ہے۔ اقلیتی کمیشن کے سربراہ غیور الحسن رضوی اور سکریٹری شارق احمد زبان پر تالہ لگا کر بیٹھ گئے ہیں۔
ای ٹی وی بھارت کو موصول اطلاعات کے مطابق اقلیتی کمیشن کی جانب سے اترپردیش اب تک کوئی نوٹس نہیں بھیجا اور نہ ہی کسی طرح کی انکوائری کی پیش رفت کی۔
اقلیتی کمیشن پر پہلے بھی غیر فعال ہونے کے الزامات لگتے رہے ہیں تاہم مودی حکومت میں کمیشن کا رول اور بھی سکڑ کر رہ گیا ہے۔ کمیشن پر یہ الزام ہے کہ جب بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے تب کمیشن چپ چاپ تماشائی بن کر بیٹھ جاتا ہے۔
معاملہ گو رکشوں کے ذریعہ اقلیتوں پر حملوں کا ہو یا بی جے پی لیڈروں کے ذریعہ ایک خاص طبقہ کے خلاف زہر افشانی کا، تقریبا سارے معاملات میں کمیشن کا رول مشکوک رہا ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ کمیشن اپنی ذمہ داریوں کو چھوڑ کر ہر وہ کام کرتا ہے جو اس کے مینول میں نہیں۔ بابری ایودھیا ملکیت معاملہ میں کمیشن مسلسل مسلمانوں کو یہ سمجھاتا نظر آیا کہ وہ حق ملکیت سے الگ ہو جائیں، اس کے بعد شہریت قانون کی حمایت میں عوامی جلسوں میں بھی کمیشن نے فعالیت دکھائی
واضح ہو کہ قومی اقلیتی کمیشن میں تین اہم چہرے مسلمان ہیں، چئیرمین غیور الحسن رضوی، اقلیتی وزیر مختار عباس نقوی کے نور نظر مانے جاتے ہیں جبکہ ممبر عاطف رشید دہلی بی جے پی میں بہت فعال اور وفادار رہنما مانے جاتے ہیں جبکہ شارق سعید سکریٹری ہیں۔