چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل ایم ناراونے نے آرمی ڈے کے موقع پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم آئین ہند کی اطاعت کا عہد کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چاہے ہم افسر ہوں یا جوان ہم سب نے آئین کی حفاظت کا حلف لیا ہے اور اسی عہد کی رہنمائی پر ہم چلتے ہیں۔ یہی عہد بنیادی طور پر ہمارے لیے مقدس ہے۔ یعنی انصاف، آزادی، یکسانیت اور بھائی چارہ جیسے آئین ہند کی بنیادی اصولوں کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے اور اسی کے لیے ہم لڑ رہے ہیں۔ فوجی سربراہ نے اس بات پر زور دیا کہ فوج کا ہر سپاہی اس بات کا عہد کرچکا ہے کہ وہ آئین ہند کی وفاداری اور اس کی اطاعت کرئے گا۔
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ فوجی سربراہ کا مذکورہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے ، جب بعض لوگ یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ فوج بڑی تیزی سے سیاست ذدہ ہورہی ہے۔حال ہی میں جنرل بپن راوت نے شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاج پر دیے گئے بیان کو بھی حزب اختلاف کے رہنماؤں اور بعض لوگوں نے سختی سے تنقید کی اور اسے ایک سیاسی بیان سے تعبیر کیا۔فوج کے اخلاقی ضابطے کا ایک بنیادی اصول ریاست کی بالا دستی ہے۔فوج کا کام ریاست کی حفاظت اور اس کی فلاح کے لیے کام کرنا ہوتا ہے نہ کہ اس کے برعکس۔
جمہوری نظام میں قوم کی خواہشات اور خیالات کو ہمیشہ ترجیح دی جاتی ہے جس کا اظہار ایک اچھا رہنماء اپنے لیڈر شپ کے ذریعہ کرتا ہے۔کلازوٹس اپنی تصنیف 'ٹریٹیز آن وار' میں لکھتے ہیں کہ سیاسی نکتہ نگاہ کا فوج کے ماتحت ہونا ایک نامناسب بات ہے، جو جنگ جیسے نتائج پیدا کرتا ہے۔پالیسی مرتب کرنا ذہانت کا کام ہے جبکہ جنگ کا انحصار ہتھیاروں پر ہوتا ہے اور اس ترتیب کا الٹ پھیر نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے فوجی نکتہ نگاہ سیاست کے ماتحت رکھنا ہی صحیح ہے۔تاہم فوج کی سیاسی تابعداری کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ فوج کسی خاص سیاسی نظریے کے ماتحت ہے۔
فوجی نفسیات کے ماہر مورس جانووٹز اپنی کتاب 'دی پروفیشنل سولجیرس' میں لکھتے ہیں کہ 'فوج کا پیشہ وارانہ رویہ بہتر سیاسی نتائج کے لیے اہم ہوتا ہے'۔روایتی طور پر فوج حکام اس لیے نہیں لڑتے ہیں کہ وہ کسی مخصوص سیاسی نظریے سے متاثر ہوتے ہیں بلکہ اس عمل میں اکثر ان کے لیے اپنی سیاسی نظریات اور مفادات متاثر ہوجاتے ہیں۔
فوج کا غیر سیاسی ہونے کے حق میں کئی اچھے وجوہات پیش کئے جاسکتے ہیں۔خاص طور سے یہ فوج کے پیشہ وارانہ کردار کیلئے اچھا ہے۔ملٹری رابطے کے بعض ماہرین ملٹری کے پروفیشنل ازم کی بنیاد فوج کے غیر سیاسی ہونے سے مضمر قرار دیے جاتے ہیں۔فوج کو سیاست سے دور رکھنا اس کے پروفیشنل ازم کے لیے زیادہ بہتر ہوتا ہے، جبکہ حقیقی معنوں میں ایک پروفیشنل ملٹری بخوشی سیول حاکمیت کو تسلیم کرتی ہے اور یہ جمہوریت کے لیے بہتر ہے۔یہاں پر ایک اور بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ فوج نہ صرف خود کو سیاست سےدور رکھ کر پیشہ ور رہتی ہے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ سیاستداں اسے روزمرہ کے معاملات اور آپریشنل فیصلوں میں شامل کریں۔یہ قومی مفاد ہے کہ سیاستداں فوج کو سیاسی بحث و مباحثے سے دور رکھیں۔کانگریس لیڈر ادھیر رنجن چودھری کا حال ہی میں فوجی سربراہ کے اس بیان پر ان کا مذاق اڑانا بالکل غیر ضروری تھا ۔جس میں فوجی سربراہ نے کم باتیں اور زیادہ کام کرنے کی تلقین کی تھی۔سمئول ہنٹنگ ٹن نے اپنی تصنیف 'دی سولجر اینڈ دی اسٹیٹ' میں لکھا ہے کہ ' اگر سیولین فوجیوں کو ملٹری معیار کی عزت کرنے دیں گے تو قومیں خود بخود آزادی اور اعلی معیار سے فیضیاب ہوجاہیں گی'۔
فوج کو اپنی بنیادی کردار یعنی ریاست کی خدمت کرنے کے عمل میں ریاست کے بنیادی اصولوں پر کھڑا ہونا چاہیے اور آئین کو ترجیح دینی چاہیے۔بعض لوگ یہ استدلال پیش کرسکتے ہیں کہ فوج پر سیولین کنٹرول کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ برسر اقتدار حکومت کے ساتھ فوج وفادار ہے۔بظاہر یہ استدلال مدلل لگتا ہے لیکن اہم فیصلوں میں سیاسی لیڈرشپ کی رائے کو حتمی ماننا سیاسی لیڈرشپ کی وفاداری نہیں بلکہ فوج کا پروفیشنل ازم ہے۔وفاداری ہمیشہ ایک مقصد یا اقدار کی ہوتی ہے ،نہ کہ کسی رہنماء کی ذات یا کسی مخصوص سیاسی نظریے کی۔
سپاہی زخمی اور ہلاک ہوتے رہتے ہیں ،خواہ وہ لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے نتیجے میں ہوں یا پھر کارگل اور سیاچن جگہوں پر موسم کی بے رحمی کا شکار ہو کر، یہ ایک معمول ہے۔لیکن اصل بات یہ ہے کہ ان سپاہیوں کو خطرناک حالات میں رہنے پر صرف ایک مقصد ہی آمادہ کررہا ہے۔ یہ مقصد سپاہیوں کے لئے ان کی اپنی زندگیوں سے زیادہ اہم ہوتا ہے جو سپاہیوں میں قوم کی خدمت کرنے کے جذبہ کو ختم نہیں کرسکتا ہے۔ خواہ کوئی بھی پارٹی برسر اقتدار ہو۔
چالیس سال تک وردی میں ملبوس رہنے والے مجھ جیسے لوگوں کے لئے فوجی سربراہ کا بیان دل کو خوش کرنے والا تھا۔اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ حالیہ ایام میں بعض فوجی افسران کے بیانات پریشان کن تھے۔ لیکن اُمید ہے کہ نئے فوجی سربراہ اپنے کہے پر عمل کریں گے۔ بھارتی ملٹری ملک کا ایک بہترین ادارہ ہے اوراسکی حفاظت کرنے کی ضرورت ہے اور کبھی کبھا ر اس ادارے کوہمیں خود سے بھی بچانا ہوگا۔
(سابق لیفٹنینٹ جنرل (ر)ڈی ایس ہوڈا بھارتی فوج کی شمالی کمان کے سربراہ رہے ہیں۔ انکی قیادت میں بھارت نے پاکستان کے خلاف سرجیکل سٹرائک کی تھی)