صحافی پریا رمانی نے ہفتے کے روز دہلی کی ایک عدالت میں سابق مرکزی وزیر ایم جے اکبر کی طرف سے دائر مجرمانہ ہتک عزت معاملے کی سماعت کے دوران کہا کہ ایم جے اکبر کی ساکھ حقیقت میں اتنی اچھی نہیں جتنا کہ وہ دعوی کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ رمانی نے اکبر پر تقریباً 20 برس قبل جنسی ہراسانی کا الزام عائد کیا تھا۔ اسی معاملے کی حتمی سماعت کے دوران انہوں نے سینئیر وکیل ریکبو جانسن کے ذریعہ یہ دلیل عدالت میں پیش کی ہے۔
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ متعدد خواتین نے ایم جے اکبر پر جنسی ہراسانی کا الزام عائد کیا ہے اور سابق مرکزی وزیر کے مطابق شادی شدہ ہونے کے باوجود ان کا کسی دیگر خاتون کے ساتھ رشتہ بھی رہا تھا، جو ان کی ساکھ کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔ اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی ساکھ اچھی نہیں ہے۔
اکبر نے رمانی کے خلاف ہتک عزت کا معاملہ درج کرواتے ہوئے کہا تھا کہ رمانی جنسی ہراسانی کا الزام عائد کرکے انہیں بدنام کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
وہیں رمانی نے سال 2018 میں می ٹو تحریک کے دوران اکبر کے خلاف عائد کردہ جسنی ہراسانی کے الزام کو سچ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس نے لوگوں کو بیدار کیا ہے۔
وکیل نے کہا کہ اکبر نے اس بات کو قبول کیا ہے کہ شادی شدہ ہونے کے باوجود وہ اپنی ایک جونئیر، جس نے می ٹو تحریک کے دوران اکبر کے خلاف جنسی زیادتی کا الزام عائد کیا تھا، کے ساتھ تعلقات میں تھے، جو ان کی ازدواجی زندگی کو نقصان پہنچا رہا تھا۔ کیا یہ اچھے ساکھ والے مرد کی نشانی ہے؟ ایک شادی شدہ ہونے کے باوجود بھی ان کے دوسری خاتون کے ساتھ تعلقات تھے۔
رمانی کے وکیل جان نے ایڈیشنل چیف میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ (اے سی ایم ایم) رویندر کمار پانڈے کی عدالت سے کہا کہ کم از کم 15 سے 16 خواتین نے اکبر کے خلاف ٹوئٹ کیا تھا۔ یہاں تک کہ خود اکبر کے مطابق وہ اپنے ایک جونئیر کے ساتھ تعلقات میں تھے، جو ان سے 20 سال چھوٹی تھی۔
انہوں نے عدالت میں دعوی کیا کہ بہت سی خواتین نے اکبر کے خلاف الزامات عائد کیے تھے لیکن انہوں نے صرف رمانی کے خلاف مقدمہ درج کیا۔
خیال رہے کہ آج عدالت میں اس مقدمے کی بحث پوری نہیں ہوپائی، اب 10 دسمبر کو اس کیس پر مزید سماعت ہوگی۔