مسلسل زہر افشانی کرکے اور جھوٹی خبریں چلاکر مسلمانوں کی شبیہ کو داغدار اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی کرنے کی دانستہ سازش کرنے والے ٹی وی چینلوں کے خلاف داخل کی گئی جمعیۃ علما ہند کی عرضی پر27 اگست کو سماعت ہوگی۔ گذشتہ شام سپریم کورٹ کے رجسٹرار کی جانب سے جاری فہرست میں یہ بات بتائی گئی۔
معاملے کی سماعت چیف جسٹس اے ایس بوبڈے کی سربراہی والی تین رکنی بینچ، جس میں جسٹس اے ایس بوپننا اور جسٹس وی رام سبرامنیم شامل ہیں کریں گے۔
جمعیت علماء ہند کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ دشینت دوے بحث کریں گے جبکہ ان کی معاونت کے لیے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ اکریتی چوبے و دیگر موجود رہیں گے۔
اس معاملے میں فریق بنے جمعیت علماء قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے بتایا کہ گذشتہ سماعت پر سینئر ایڈووکیٹ دشینت دوے (صدر سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن) نے عدالت کو بتایا تھا کہ تبلیغی مرکز کو بنیاد بناکر پچھلے دنوں میڈیا نے جس طرح اشتعال انگیز مہم شروع کی یہاں تک کہ اس کوشش میں صحافت کی اعلیٰ اخلاقی قدروں کو بھی پامال کردیا گیا۔ اس سے مسلمانوں کی نہ صرف یہ کہ سخت دلآزاری ہوئی ہے بلکہ ان کے خلاف پورے ملک میں منافرت میں اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک عام سے واقعہ کو میڈیا کے بڑے حلقے نے غیر معمولی واقعہ بناکر پیش کیا اور اس کے لئے جھوٹ کو بنیاد بنایا گیا یہاں تک کہ کورونا وائرس کی وبا کو کورونا جہاد سے تعبیر کرکے یہ تاثر دینے کی مجرمانہ کوشش کی گئی کہ ملک میں اس وبا کو مسلمانوں نے پھیلایا ہے۔ اس سے عوام کی اکثریت نہ صرف گمراہ ہوئی بلکہ عام مسلمانوں کو لوگ شک کی نظر سے دیکھنے لگے ہیں۔
ایڈووکیٹ دشینت دوے نے عدالت سے گزارش بھی کی تھی کہ پٹیشن پر جلد از جلد فیصلہ صادر کیا جائے۔ جس پر چیف جسٹس آف انڈیا ناراض ہوگئے تھے اور انہوں نے کہا کہ تھا کہ عدالت پر ایسے دباؤ نہیں بنایا جاسکتا جس پر دشینت دوے نے کہا تھا کہ چار ماہ سے زائد کا عرصہ گذر جانے کے باوجود ابھی تک عدالت فیصلہ نہیں کرسکی ہے اور تاریخ پر تاریخ دی جارہی ہے۔ نیز حکومت کی جانب سے بھی کوئی کارروائی نہیں کی جارہی ہے اس کے برخلاف حکومت نے اپنا جواب داخل کرنے میں دو ماہ کا وقت لیا۔
گلزار اعظمی نے کہا کہ وکیل اعجاز مقبو ل نے مرکزی حکومت کی جانب سے داخل حلف نامہ کی مخالف میں عدالت میں جواب داخل کیا ہے جس میں تحریر کیا گیا ہے کہ حکومت نفر ت اور جھوٹی خبریں پھیلانے والے نیوز چینلز پر بجائے کارروائی کرنے کے انہیں بچانے کا کھیل کھیل رہی ہے۔
گلزار اعظمی نے کہا کہ ایک جانب جہاں حال ہی میں ممبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بینچ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں داخل کیا گیا وہیں ڈیڑھ سو چینلوں اور اخبارات کی کٹنگ اور تفصیلات داخل کی ہیں جس میں انڈیا ٹی وی، زی نیوز، نیشن نیوز، ری پبلک بھارت، ری پبلک ٹی وی، شدرشن نیوز چینل اور بعض دوسرے چینل شامل ہیں جنہوں نے صحافتی اصولوں کو تار تار کرتے ہوئے مسلمانوں کی دل آزاری اور قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے کی ناپاک سازش رچی تھی۔