مولانا تاجدار نے کہا کہ فیصلہ خود یہ ظاہر کر رہا ہے کہ عدالت نے ملک کو بچانے کے لیئے درمیانی راستہ اختیار کیا ۔ سنّی وقف بورڈ کا عتراض تھا کہ 1949 میں مورتی غلط طریقے سے رکھی گئی اور بابری مسجد کو طاقت کے زور پر منہدم کیا گیا ۔ عدالت عالیہ نے سنی وقف بورڈ کے دعوی کو تسلیم کرتے ہوئے مورتی رکھنے و مسجد انہدام کو غیر قانونی قرار دیا ۔
مسجد جہاں ایک مرتبہ تعمیر ہو جاتی ہے وہ تا قیامت تک مسجد رہتی ہے ۔ ادھر عدالت نے نرموہی اکھاڑے کے مقدمہ کو خارج کر دیا اور رام کی پیدائش کی جگہ ثابت نہیں ہو پائی ۔
اس طرح سارے ثبوت مندر کے خلاف تھے ۔اس سے یہی پیغام جا رہا ہے کہ عدالت عالیہ نے اکثریت کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے صرف ملک کو بچانے کیلئے فیصلہ مندر کے حق میں دیکر مسجد کو اراضی دینے کا حکم دیا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ عدالت عالیہ نے 1949 سے قبل مسجد کے وجود کو تسلیم کیا کہ وہاں نماز پڑھی جاتی تھی ۔آثار قدیمہ کی رپورٹ کو پوری طرح صحیح نہیں مانا جا سکتا لیکن فیصلہ اسی بنیاد پر مالکانہ حق ایک فریق کو دے دیا گیا ۔
عدالت عالیہ کے فیصلے کا مسلمانوں نے احترام کرتے ہوئے پوری طرح صبرو تحمل کا مظاہرہ کیا ۔
انہوں نے خاص طور سے ایک بات یہ کہی کہ 'فیصلہ جو ہونا تھا ہو گیا لیکن اندیشہ ہے کہ کل کو کاشی و متھرا کی آواز اٹھ سکتی ہے اور پھر ایک مرتبہ ملک کو امتحان سے گزرنا پڑ سکتا ہے ۔
ملک میں امن امان رہے اسی میں ملک و قوم کا مفاد ہے ۔یکجہتی و خیر سگالی ہی ملک کا مزاج ہے جس کو بنائے رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔