ریاست بہار کے شہر بھاگلپور کے دورے پر آئے مولانا سلمان حسینی ندوی نے مسلمانوں کے تمام مکتبۂ فکر سے متحد ہونے اور ملک و قوم کی ترقی کے لیے متحد ہوکر کام کرنے پر زور دیا۔
مولانا سید سلمان حسینی ندوی نے بابری مسجد کے سوال پر مولانا علی میاں ندوی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ 'ہمارے جو نانا تھے سید ابوالحسن علی حسنی ندوی عرف علی میاں ندوی نے سنہ 1990 میں اصل کوشش شروع کی تھی۔ مدراس کے شنکر اچاریہ سے ملاقات کر کے اور یہ طے کیا تھا کہ مندر قریب میں بنا دیا جائے مسجد برقرار رہے، اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کی جائے، اس پر اتفاق بھی ہوا تھا، ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ اتفاق آگے بڑھتا تو نہ مسجد شہید ہوتی نہ مسلمان شہید ہوتے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے سے قبل مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ساتھ اپنے ٹکراؤ پر بھی مولانا سلمان حسینی ندوی نے اپنا موقف رکھا، انہوں نے بتایا کہ اپنی بات رکھنے کا سبھی کو حق حاصل ہے، میڈیا میں کوئی بیان دینے سے قبل مسلم پرسنل لاء بورڈ کی ایگزکٹیو اجلاس میں اپنی رائے رکھی تھی کہ ہمیں اپنے حریف سے بات کرنی چاہیے اور مصالحت کا راستہ اپنانا چاہیے لیکن میری رائے پر غور کرنے کے بجائے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے کچھ لوگوں کا رویہ ان کے تئیں معاندانہ تھا جس سے بات بگڑی۔'
انہوں نے ملک کی موجودہ صورتحال پر بھی کھل کر اپنی رائے رکھی اور آر ایس ایس کی کامیابی اور ہماری ملی تنظیموں کی ناکامی پر غورو فکر کرتے ہوئے مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرنے پر زور دیا۔
انہوں نے جمعیت علما ہند کے قیام اور آر ایس ایس کے قیام کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ 'سنہ 1919 میں جمعیت علما کا قیام عمل میں آیا اور سنہ 1925 میں سخت گیر ہندو تنظیم آر ایس ایس قائم ہوئی، لیکن آخر کیا وجہ رہی کہ آر ایس ایس نے ان نوے برسوں میں اپنی بنیاد کو مضبوط تر کر دیا اور اسلام کی نمائندگی کرنے والی تنظیم پہلے قائم ہونے کے باوجود کامیابی حاصل نہیں کر سکی، ان کا کہنا تھا کہ کارکردگی میں کہاں کمی رہی، سوچ میں کس قدر فرق ہوا اس پر غور فکر کی ضرورت ہے، انہوں نے کہا کہ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ آپ آر ایس ایس سے شکایت کریں مسئلہ یہ ہے آپ اپنے آپ سے شکایت کریں، کہ اگر کوئی آگے بڑھ گیا تو آپ پیچھے کیوں رہ گئے۔'
انہوں مسلمانوں کے اپنے اختلاف پر بات کرتے ہوئے کہا کہ 'مسلمان بکھرے ہوئے اس لیے ہیں وہ فرقہ واریت پر مبنی تاریخ کو اپنے سامنے رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر اتحاد نہیں ہے، اور سب سے ضروری کہ قرآن کو اپنا مرکز توجہ نہیں بناتے ہیں۔'
انہوں نے مدارس میں نصاب کی تبدیلی اور عصری علوم کے حصول پر بھی زور دیا اور کہا کہ آج ہمیں یہ چاہیے کہ ہم اس بات کو لوگوں کے ذہن میں بیٹھائیں، خاص طور پر طلبا کے ذہن میں بٹھائیں اور مدارس سے بھی یہ بات منتقل کریں کہ تعلیم کا عرصہ کم ہو، نصاب ہلکا ہو، اور جو ہمارے طلبا ہوں ان کو صنعتیں آتی ہوں حرفتیں آتی ہوں، اور وہ بزنس میں میں حصہ لے سکتے ہوں، اور جو بھی مختلف صلاحیتیں ہوں ان کو استعمال کیا جائے اس طرح کہ وہ ان مذکورہ باتوں کے ذریعے اپنی کمائی کا ذریعہ بنا سکیں۔