تین طلاق کو جرم کے زمرے میں لانے کے لیے حکومت نے آج مسلم ویمن پروٹکشن آف رائٹز میرج بل 2019 پیش کیا ہے، جس پر بحث جاری ہے۔
اس بل پر بحث سے مسلمانوں میں اضطرابی کیفیت پائی جا رہی ہے اور مسلم تنظیمیں اور جماعتیں اس بل کی مسلسل مخالفت کر رہی ہیں۔
حکومت اس بل کو ایوان سے منظور کرانے کے لیے کافی سنجیدہ ہے اور اس کے لیے برسراقتدار جماعت نے وہپ بھی جاری کیا ہے۔
قانون و انصاف کے مرکزی وزیر روی شنکر پرساد نے بل پیش کرتے ہوئے کہا ' تین طلاق سے متاثرہ کچھ خواتین نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی تھی، سپریم کورٹ نے، اپنے سنہ 2017 کے فیصلے میں اس ضمن میں قانون بنانے کا عندیہ دیا تھا۔ پانچ رکنی بنچ میں شامل ججز نے تین طرح کے فیصلے دیے تھے ان میں جسٹس فالی ایس نرمن اور جسٹس یو یو للت تین طلاق کو غیر آئینی قرار دیا جبکہ جسٹس کورین جوزف نے کہا کہ تین طلاق کو قرآن شریف میں ہی غلط بتایا گیا ہے انہوں نے بھی اسے غلط بتایا، دیگر دو جسٹس جن میں سی جے آئی اور جسٹس نظیر شامل تھے، نے کہا کہ یہ شریعت کا بینادی حصہ ہے لیکن اس پر قانون بننا چاہیے'۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے بعد بھی تین طلاق کے واقعات میں کوئی کمی واقع نہیں آئی، جنوری 2017 کے بعد سے اب تک 574 تین طلاق کے واقعات سامنے آئے ہیں، ان میں سے 345 واقعات ایسے ہیں جو سپریم کورٹ کے فیصلے بعد سامنے آئے۔
وزیرقانون نے کہا کہ سماج میں بڑھتے تین طلاق کو روکنے کے لیے کیا قدم اٹھائے جائیں، کیا مسلم خواتین کو اسی حالت پر چھوڑ دیا جائے، جس پر انہوں نے تین سوالات کھڑے کیے؟'۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کے 20 مسلم ممالک نے تین طلاق پر قانون نافذ کیا ہے تو کیا ہمیں اس پر قانون نہیں بنانا چاہیے، دوسرا یہ کہ سپریم کورٹ نے کہا کہ تین طلاق غلط ہے، چیف جسٹس نے کہا ایوان قانون بنائے، ہم قانون بنا کر آئے تو کہا جائے اس کی مخالفت کریں تو کیا تین طلاق متاثرہ خواتین سپریم کورٹ کے فیصلے کو اپنے گھر میں ٹانگیں، کوئی کارروئی نہیں ہوسکتی؟َ'۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کے آئین کی بنیاد میں سے صنفی مساوات، خواتین کے ساتھ انصاف شامل ہے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے'۔
بل کی پوری تفصیلات بتارہے ہیں وزیر قانون روی شنکر پرساد۔